حسب فرمائش میں کوتاہی
خان صاحب نے لاہور میں بڑا جلسہ تو کیا۔ لیکن یہ "حسب فرمائش" نہیں ہو سکا۔ اس سے بہت کم رہا۔ پھر خان صاحب سے حسب فرمائش کے معنے سمجھنے میں بھی غلطی ہو گئی۔ آج کل نہ جانے کیوں الجھے الجھے ہیں۔ دو دن پہلے فرمایا، محترمہ بے نظیر 1998ء میں صاف شفاف انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آئیں۔ 1998ء میں کب الیکشن ہوئے تھے؟ حسب فرمائش کا مطلب بھی وہ اسی"الجھائو" کی وجہ سے نہ سمجھ سکے۔ ان سے کچھ ولی صفت بچوں نے فرمائش کی تھی کہ لاہور سے اتنے بندے اکٹھے کر لو۔ باقی کام ہم سنبھال لیں گے۔ ورنہ بقول راوی، الیکشن ہی نہیں کرائیں گے یعنی پھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان، ایسے الیکشن کا پھر اچار ڈالنا ہے۔ فرمائش یہ تھی کہ لاہور سے اتنے بندے اکٹھے کرو، خان نے یہ سمجھا کہ لاہور میں اتنے اکٹھے کرو۔ چنانچہ پورے ملک سے لوگ لائے گئے۔ سب سے زیادہ پختونخواہ سے آئے۔ مینار پاکستان کے جلسے میں تین چوتھائی تو وہی تھے۔ باقی پنجاب بھر سے، کوئٹہ سے، کراچی سے آئے۔ ہاں، لاہور سے بھی لوگ آئے۔ ٭٭٭٭٭ اس عظیم جلسے سے خطاب کرتے ہوئے خان صاحب نے اپنی زندگی کی اہم ترین تقریر کی۔ اس سے پہلے وہ اڑھائی درجن سے زیادہ مواقع پر اپنی زندگی کی سب سے اہم تقریریں کر چکے ہیں۔ چنانچہ اس حساب سے یہ ان کی زندگی کی چھبیسویں سب سے اہم ترین تقریر تھی۔ اس تقریر میں کوئی بھی نئی بات نہیں تھی، پھر بھی یہ اہم ترین تھی اور یہی اس کی اہمیت ہے۔ انہوں نے تعلیم پر زور دیا۔ دینا بھی چاہیے۔ امید ہے اگلی بار انہیں پختونخواہ کی حکومت ملی۔ (اگرچہ امید زیادہ نہیں کہ مجلس عمل نے دوبارہ حکومت والے راستے میں کھنڈت ڈال دی ہے) تو وہ پختونخواہ میں تعلیم پر توجہ دیں گے۔ تازہ تازہ مشرف بہ عمران کیے جانے والے بڑے اخبار نے چند دن پہلے ہی رپورٹ چھاپی ہے کہ پانچ سال کے دوران مہاراج خٹک کی حکومت نے صرف ایک سکول بنایا جبکہ تین سو سرکاری سکول اس عرصے میں بند ہوئے۔ جمع تفریق کے خطاب سے کہنا چاہیے کہ دو سو ننانوے سکول بند ہوئے۔ امید ہے، بشرط مکرر حکمرانی وہ صحت پر بھی توجہ دیں گے۔ پنجاب میں تو اس عرصے میں آٹھ دس نئے ہسپتال بن گئے۔ دھرنا جاتی مصروفیات کی وجہ سے خاں صاحب کوئی ہسپتال تو کیا، ڈسپنسری بنانے سے بھی معذور رہے۔ دھرنا جاتی عذر چونکہ معقول تھا اس لیے انہیں معاف کر دینا چاہیے۔ خان صاحب نے فرمایا، دو پاکستان ہیں، ایک وی آئی پی، دوسرا غریب۔ ہم ایک کر دیں گے۔ کوئی غریب رہے گا نہ امیر، سب برابر ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے یہ کام حکومت ملنے کے بعد ہی ہو گا۔ فی الحال چونکہ حکومت ان کے پاس ہے۔ اس لیے جلسہ گاہ کے دو دروازے گیٹ نمبر 3اور گیٹ نمبر چار وی آئی پی اشرافیہ کے لیے رکھے تھے۔ دوسرے پاکستان کے لیے دوسرے دروازے تھے۔ کوئی لیڈر خطاب کر رہا ہو تو ماتحت لیڈر کو ہنسنا نہیں چاہیے۔ خلاف اخلاق ہے۔ خان صاحب جب خطاب میں یہ فرما رہے تھے کہ ہم گنے کے مظلوم کاشتکاروں کو انصاف اور ان کی رقم واپس دلوائیں گے تو جہانگیر ترین ہنسنے لگے پھر منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ بری بات! ڈوکلام سے پیار محبت کی جو کہانی شروع ہوئی تھی۔ وہ اب یہاں تک پہنچی ہے کہ چین اور بھارت افغانستان میں مشترکہ معاشی منصوبے مکمل کریں گے۔ ان منصوبوں کا فیصلہ تب ہوا جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بظاہر اچانک لیکن بباطن پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت چین جا پہنچے اور صدر جمہوریہ چین شی چنگ پنگ سے دو روز تک مذاکرات کیے۔ دو روز تک مذاکرات بھی اپنی طرح کا نیا ریکارڈہے۔ طے ہوا ہے کہ دونوں ملک تباہ شدہ افغانستان کی تعمیر نو کریں گے۔ امریکہ کے بعد چین نے بھی بھارت کا کردار تسلیم کر لیا ہے۔ ہماری ساری دعائیں بہرحال حقانی نیٹ ورک کے لیے ہیں چلتے چلتے ڈوکلام کا لطیفہ بھی سن لیجیے۔ یہ بھوٹان کی سرحد سے ملحق وہ علاقہ ہے جس پر بیک وقت چین اور بھارت دونوں کا دعویٰ ہے۔ اس پر قبضہ البتہ چین کا ہے۔ چین نے یہاں سڑک تعمیر کی تو بھارت نے وہاں فوج لگا دی اور سڑک کی تعمیر رکوا دی۔ عالمی میڈیا تبصرے کرنے لگا کہ دونوں ملک جنگ کے دھانے پر ہیں کئی ہفتوں کے ڈیڈ لاک کے بعد بھارت نے ڈوکلام سے فوج واپس بلا لی اور یوں اس پر چین کا حق غیر اعلانیہ طور پر مان لیا۔ تبھی یہ بات کہی گئی تھی کہ دونوں ملکوں میں وسیع تر تعاون کے آغاز کے اشارے ہیں، پھر وہی ہوا ملاقات میں چینی صدر نے بھارتی گانا بجایا۔ تو ہے وہی دل نے جسے اپنا کہا۔ مودی نے جواب میں انہیں بھارتی انداز کی بنی چائے پلائی۔ لداخ ڈوکلام سے لگ بھگ ہزار میل مغرب میں کشمیر کے صوبے میں ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ کچھ ہفتہ پہلے سب سے بڑے اردو اخبار کے ممتاز تجزیہ کار نے لکھا کہ ڈوکلام لداخ کا اہم مقام ہے۔ ڈوکلام کشمیر میں ہے تو سری نگر ضرور پھر مغربی بنگال کی کسی شہر کا نام ہو گا۔ اسی اخبار کے ایک اور ممتاز تجزیہ نگار نے پچھلے دنوں عراقی کردستان کو شمال سے اٹھا کر جنوب میں رکھ دیا تھا۔ غنیمت ہے بصرے کی بندرگاہ بھی اسے نہیں دے دی۔ چین بھارت تعاون اب ون بیلٹ ون روڈ کی طرف بھی جائے گا۔ برما سے نکلنے والی سڑک بنگلہ دیش تک جائے گی جبکہ چین کھٹمنڈو(نیپال) تک ریلوے لائن بچھائے گا۔ وہاں سے ایک لائن بھارت اپنے ہاں لائے گا۔ نئے عالمی نقشے میں ہمارا مقام ضرور موجود ہے البتہ فی الحال ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ اپنی خبر نہیں آئی۔