بندہ نواز حکومت
ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا ہے، جو اچھا شگون نہیں ہے، مطلب حکومت کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ اس لئے کہ پھر جو ہونے کا خطرہ ہے، اس میں اپوزیشن کے ہاتھ سے تو کچھ جائے گا نہیں۔ اس لئے کہ اس کے ہاتھ میں کچھ ہے ہی نہیں ، باقی فقرہ آپ خود مکمل کر لیں بلکہ شاید مکمل کر ہی چکے ہوں، اس لئے مزید لکھنے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن یہ الفاظ دہرانے میں بھی کوئی خرابی نہیں ہے کہ شگون اچھا نہیں ہے۔ عوام اس میں کو کچھ اور ہی نام دے رہے ہیں، یعنی الیکٹرانک دھاندلی مشین۔ مطلب 2018ء کے الیکشن میں مشین روک کر جو کچھ کیا گیا تھا، اب مشین چلا کر کیا جائے گا۔ مشین روکنے کی وجہ سے نتائج میں دو دن کی (اوسطاً) تاخیر ہو گئی، نئی مشین چلانے سے نتائج بروقت آ جائیں گے لیکن مشین چلانے کی ٹائمنگ میں احتیاط ضروری ہے۔ ایک بٹن ہی تو دبانا ہے، کسی پرجوش انصاف پسند نے ایک دن پہلے ہی دبا دیا، تویہ بڑی مزے دار صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ ووٹر گھروں سے ہی نہیں نکلیں گے کہ نتیجہ تو کل شام ہی آ گیا تھا۔ اب ہمیں پولنگ سٹیشن جانے کی ضرورت کیا ہے۔ یہیں گھر میں بیٹھ کر دہی سے روٹی کھا لیتے ہیں۔
٭ویسے دہی سے روٹی کھانے کی بات بھی اب عیاشی ہو گئی۔ عمران خاں صاحب نے اتنی مہنگائی کر دی ہے اور ابھی نہ جانے کتنی کرنی ہے کہ محاورہ بدلنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں۔ نیا محاورہ یہ ہو گا کہ تمہارا کیا لیتا ہے، بے چارہ بیٹھا پانی سے روٹی کھا رہا ہے۔ پانی سے روٹی کھانے کے دن آ گئے۔ یعنی گڈ اولڈ ڈیز نہیں، ویری گڈ ویری اولڈ ڈیز آ گئے۔ انگریزی حکومت نے مسلمان علاقوں کو غریب رکھا تھا۔ اتنا غریب کہ ہفتے میں چھ دن(اوسط) لوگ سرخ مرچ ملے پانی کے ساتھ روٹی کھایا کرتے تھے اور جسے ساتویں دن (چینی نہیں، گڑ والی سرخ شکر) مل جاتی تھی، اسے خوش نصیب مانا جاتا تھا۔ یہیں سے محاورہ نکلا کہ تمہارے منہ میں گھی شکر۔ عمران خاں صاحب کو یہ کریڈٹ تو تاریخ ضرور دے گی کہ انہوں نے ویری گڈ ویری اولڈ یعنی ازحد سنہرے دور کی واپسی کا مشکل بلکہ ناممکن ترین کارنامہ کر دکھایا اور کیوں نہ کر دکھائے، آخر 22برس جدوجہد کی ہے۔
٭سنہرے دنوں کی واپسی کے حوالے سے یہ رپورٹ بھی چھپی ہے کہ حالیہ تین برسوں میں پاکستان کی جملہ آبادی اوسطاً 13فیصد غریب ہوتی۔ جملہ آبادی میں سے ایلیٹ کلاس کو نکال دیا جائے اور نیم اشرافیہ کو بھی نکال دیا جائے تو اوسط غربت کی شرح کہیں زیادہ ہو گی۔ غریب کی غربت کا اندازہ یوں لگائیے کہ چیزیں کتنی مہنگی ہو گئی ہیں کچن کا صرف ایک آئٹم جو نواز دور میں ڈیڑھ سو روپے کلو تھا، اب چار سو سے بھی اوپر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے خیر خواہ تجزیہ نگار اور کالم نویس البتہ اسے دوسرے معنوں میں دکھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیکھو، کتنی خوشحالی عمران کے دور میں آئی۔ ڈیڑھ سو والی شے اب چار سو کی لے رہے ہیں اور ہنس کر لے رہے ہیں۔ ہنس کر لینے کی ویڈیو تو بنائیں اور پھر اسے اپنے شو میں چلا بھی دیں۔ لیکن یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔
٭عمران خاں کو شاید انہی تجزیوں پر اعتماد ہے کہ عوام خوشحال ہیں اور ہنس ہنس کر مہنگی چیزیں خرید رہے ہیں۔ چنانچہ وہ نہ صرف یہ کہ اشیا کو مسلسل مہنگی کئے جا رہے ہیں بلکہ مہنگائی کی تاریخ بھی رقم کر رہے ہیں۔ تازہ مثال دیکھئے، اگست میں جولائی کے بجلی بلوں میں پونے دو روپے یونٹ بڑھا دیے گئے۔ ستمبر کا مہینہ آیا تو اسی اگست کے بلوں میں پھر سے ڈیڑھ روپے (تقریباً) فی یونٹ کا اضافہ کر دیا گیا۔ ظاہر ہے، عوام خوشحال ہیں، ہنس ہنس کر یہ بل بھی ادا کر دیں گے۔ ایک اضافہ ستمبر کے بل میں ہنس ہنس کر دیا، دوسرا اضافہ اسی مہینے کا اکتوبر کے بلوں میں ہنس ہنس کر ادا کریں گے۔ ہنسی بھی کیسی، زارو قطار ہنسی، خوشحالی کا بادل موسلا دھار برسے بلکہ کلائوڈ برسٹ cloud brustکر کے برسے تو ہنسی کو موسلا دھار ہونے سے کون روک سکتا ہے۔
٭خبر ہے کہ حکومت نے ملکی ساختہ چینی کے بجائے بیرون ملک سے فی کلو 38روپے مہنگی چینی خرید لی یعنی درآمد کر لی۔ خبر کے مطابق ٹریڈنگ کارپوریشن نے حکومت کو بتا دیا تھا کہ یہ مہنگی بولی وصول ہوئی ہے۔ مطلب کہ اسے منظور نہ کیا جائے لیکن وزارت صنعت نے بولی منظور کرنے کا حکم دیا۔ اس سے پہلے سی این جی ایل این جی بھی تین بار ریکارڈ مہنگی خریدی گئی۔ اب مہنگی کاٹن بھی درآمد کی گئی ہے جس سے ملکی روٹی کی قیمت میں مندا آ گیا ہے۔ یہ مہنگی خریداری کر کے حکومت کن بندوں کو نواز رہی ہے؟ ظاہر ہے "مستحقین" ہی ہوں گے۔ ماننا پڑے گا کہ حکومت "بندہ نواز" ہے۔