اعظم گڑھ سے بستی نظام الدین براستہ پٹھانکوٹ
اسلام کے بے مثال مفسر اور شارح مولانا وحید الدین خان ساڑھے96 سال کی عمر میں بزم دنیا میں رخصت ہوئے۔ اعظم گڑھ سے شروع ہونے والا سفر براستہ پٹھانکوٹ دہلی کی بستی نظام الدین میں ختم ہوا۔ ان کی زندگی اور فکر الٰہی تین مقامات کے گرد محور گردش رہی، جغرافی نہیں، روحانی اور عقلی طور پر۔
مولانا کا الرسالہ مشن دنیا کے ہر ملک میں ہے اور ان کا ماہانہ جریدہ الرسالہ اردو اور انگریزی زبانوں میں دنیا کے ہر گوشے میں پڑھا جاتا ہے۔ حلقے کے لوگ اپنے طور پر اس کے تراجم دیگر زبانوں میں بھی کرتے ہیں۔ ہندوستان سے نکلنے والا اور کوئی بھی رسالہ یا ضمیمہ اتنا بڑا دائرہ اشاعت نہیں رکھتا۔ مولانا رسمی معنوں میں عالم دین نہیں تھے، انہوں نے دین کا گہرا مطالعہ کیا۔ ان پردارالمصنفین کا بھی اثر تھا۔ مولانا مودودی کا بھی اور تبلیغی جماعت کا بھی لیکن ان کا ذہن معقولی تھا، اتنا ہی سائنسی بھی۔ انہوں نے قرآن کا مطالعہ معتقدین کی قیود سے آزاد ہو کر کیا اور دین کی حقیقی تعبیر کے لئے بہت برس جانکاہی کی۔ اسی سفر کے دوران انہوں نے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرلی کہ ان کے خیال میں جماعت "تعبیر کی غلطی" کی مرتکب ہوئی تھی۔ وہ اسلامی لحاظ سے ٹھیک نہیں تھی۔ اس ناطے چھپنے والی ان کی کتاب نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں میں زلزلہ پیدا کردیا۔ جماعت نے اس کتاب کا مدلل جواب دیا لیکن مولانا کی کتاب کا گھائو زیادہ گہرا تھا۔ دن بدن ان کے حامیوں کی تعداد بڑھی اور خود جماعت کے اندر بھی نظر ثانی کی سوچ پیدا ہوئی لیکن سیاست کے ارتقائی سفر میں واپسی کی راہ نہیں تھی۔
مولانا کی حیرت انگیز کتاب "مذہب اور جدید چیلنج" ہے۔ ایسے وقت میں جب جدید اسلامی تحریکوں کا طوطی پورے عالم اسلام میں بول رہا تھا اور مراکش سے لے کر جوگ جکارتہ تک نئے طالب علم مولانا مودودی، سید قطب اور بدیع الزمان نورسی کی فکر کے اسیر ہورہے تھے، وحید الدین خان نے جادو کے سے منتر کے ذریعے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ترکی کی آق پارٹی نے تعبیر کی غلطی کو سامنے رکھ کر سیاست اور تبلیغ کے دائرے ازسرنو متعین کئے اور حکومت میں آ گئی۔
یعنی مولانا وحید الدین خان نے جو راہ الگ سے دکھائی تھی، ترکی والوں نے اسی میں سے اجتہاد کا الگ راستہ اختیار کر کے کامیابی حاصل کی۔ خدا ہی کو معلوم ہے کہ مولانا وحید الدین اس پر حیران ہوئے یا اسے صائب سمجھے۔ بہرحال ترکی والوں نے اجتہاد اندر اجتہاد کیا اور خوب کیا۔
اخوان المسلمون کو مصر کے خون آثار نظار جبر نے سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا کہ وہ نیا راستہ تلاش کر سکے اور اسے خاک و خون کا غسل دے دیا۔ بھارت کی جماعت اسلامی مانے نہ مانے لیکن وہ مولانا مودودی اور مولانا وحید الدین کے بتائے گئے رستوں پر بیک وقت چل رہی ہے۔
یہی حال مقبوضہ کشمیر کی جماعت اسلامی کا بھی ہے (سید علی گیلانی کو جماعت نے بہت پہلے نکال دیا، اس کی وجوہات میں فکر وحیدالدین عملی طور پر شامل ہے۔ اعتراض بھلے سے نہ سہی)۔ مولانا وحید الدین خان نے امریکہ سے لے کر جاپان تک پورے کرہ ارض میں غیر مسلموں کی سوچ کو بھی متاثر کیا۔ خود بھارت میں ہندو دانشوروں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے بارے میں اپنا طرز عمل بدلنے پر مجبور ہوئی۔ بھارتی میڈیا بھی ان سے متاثر ہے۔ تجربات نے بتایا ہے کہ جہاں جہاں ان کی حکمت عملی پر عمل کیا گیا، وہاں وہاں ہندو مسلم فسادات درحقیقت مسلم کش فسادات میں کمی آئی۔
عشرہ بھر پہلے کی بات ہے، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی جہادی فلسفے کے سحر کا اسیر تھا۔ امریکہ نے آنکھیں بدلیں اور اس کے سرکاری غیر سرکاری راز، دستاویزات اور کتابوں کی شکل میں پے در پے سامنے آنے لگے تو جہاد افغانستان سے لیکر جہاد کشمیر تک سب کی حقیقت کھل گئی۔ پچھتاوے سے زیادہ یہ احساس تکلیف دہ رہا کہ کس طرح ہمیں "بے وقوف" بنایا جاتا رہا۔
انہی دنوں مولانا وحید الدین مرحوم کے بعض اینٹی جہاد (بقول ہمارے) مضامین پر اپنے کالم میں سخت تنقید کی اور ایسی تنقید کہ اس میں بے ادبی بھی شامل ہو گئی۔ بہت بار ارادہ کیا کہ ان سے معافی مانگ لوں لیکن تیز رفتار واقعات کے دھارے نے ٹھہر کر سوچنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اب ناگزیر موقع ہے، تو ان کی روح سے معافی کا خواستگار ہوں۔ وہ لامحالہ صحیح تھے اور ہم تو محض بے وقوف بنائے گئے تھے۔ ہم اسے جو سودا Bargain سمجھے، یہ وہ نہیں تھا، یہ تو کوئی اور ہی سودا Stuff نکلا۔
مولانا وحید الدین نہیں رہے، جاوید غامدی پاکستان چھوڑگئے۔ پردیس میں ہیں اور عمر بھی اپنے تقاضے لاگو کرتی ہے۔ پہلے جیسا کام شاید اب نہیں کرسکتے۔ ان کی فکر کے ایک وارث صاحب علم ہیں۔ بہت قیمتی کالم لکھتے ہیں۔ وقتی موضوعات پر بھی ان کی تحریریں مستقل قدر رکھتی ہیں، لیکن ان کے حلقے کو زیادہ ضرورت "الرسالہ" کی دعوت اور ریسرچ کو آگے بڑھانے کی ہے۔ خدا مولانا وحید الدین کے درجات بلند فرمائے۔