حکومتی امداد اور ہمارے سیاسی قائدین
اس نازک وقت میں جب پاکستان وبائی آفت کی لپیٹ میں ہے، ہماری سیاسی قیادت میں وہ ہم آہنگی نظر نہیں آرہی جو اس موقعے پر قوم کی ضرورت ہے اور اپوزیشن کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی جس میں حکومت کی سبکی کا کوئی پہلو نکلتا ہو، وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے حکومت کو اپنے نشانے پر رکھ کر اورہدف تنقید بنا کر اپنا زبانی کلامی اپوزشن کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حکومت کا کام تو آفتوں سے نبردآزما ہونا ہے، حکمران اپنی ناتجربہ کاری اور تجربہ کار ساتھیوں کی معیت میں پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے کر رہے ہیں۔ سب سے مشکل فیصلہ پاکستان کی غریب اور مزدور عوام کو ان کے گھروں تک محدود کرنا ہے تا کہ وہ اس وباء کے مزید پھیلائو کا موجب نہ بنیں۔
پاکستان کی ایک بڑی آبادی اس غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو اپنے روز مرہ کے معاملات چلانے کے لیے روزانہ کام پر مجبور ہیں بلکہ اس میں وہ سفید پوش بھی شامل ہیں جواپنی سفید پوشی کے بھرم کی وجہ سے کسی امداد کے طالب تو نہیں ہوتے لیکن سب سے زیادہ امداد کی ضرورت اسی طبقے کو ہے جو کسی سے مانگ نہیں سکتا، فاقے کرتا ہے مگر کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہیں پھیلاتا اس طبقے میں تنخواہ دار طبقہ بھی شامل ہے جس کی گزر بسر ہر ماہ ایک لگی بندھی آمدن سے ہوتی ہے۔ حکومت کی توجہ سب سے زیادہ ان خاندانوں کی جانب ہے جو دیہاڑی دارمزدور یا پھر ایسے افراد ہیں جو جسمانی معذوری یا کسی اور عذر کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے اسی طبقے میں حکومتی امداد تقسیم کی جارہی ہے۔
امداد کی تقسیم کے بارے میں متضاد خبریں گردش میں ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ اس میں بے قاعدگیاں ہو رہی ہیں اور کہیں سے یہ شکایات موصول ہورہی ہیں کہ امداد مل تو رہی ہے لیکن درمیان میں کچھ ہوشیار لوگ اپنی دیہاڑی لگا رہے ہیں۔ ایسے دیہاڑی باز ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور یہ لوگ اپنی دیہاڑی لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس افراتفری اور کڑکی کے حالات کے باجود ایک معقول امدادی رقم مستحق افراد تک پہنچائی جارہی ہے جس میں چار سے پانچ افراد پر مشتمل کنبہ کو مہینہ بھرکا راشن مل سکتا ہے یعنی ایک خاندان کی زندگی کی ڈور برقرار رہنے کی امید کی جا سکتی ہے۔
حالات و واقعات کے تناظر میں حکومت کی مقدور بھرامدادی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ پاکستان کے وسائل، آبادی اور عوام کے مزاج کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے بہت بہتر کار کردگی سامنے آرہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بتایا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عوام کے لیے بہت زیادہ امداد کا اعلان کیا ہے جن کے مقابلے میں ہمارا امدای پیکیج واقعی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔
ہماری آبادی ان ترقی یافتہ ملکوں سے کہیں زیادہ ہے جب کہ دوسری جانب وسائل آبادی کے تناسب سے اتنے ہی کم ہیں اور خطرناک بات یہ ہے کہ مستقبل بھی کوئی خوشگوار نظر نہیں آرہا۔ کورونانے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، عالمی بینک کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے مالی حالات انتہائی بگاڑ کی جانب ہیں اور یہ پیشنگوئی یہ کی جارہی ہے کہ مہنگائی مزید بڑھے گی جس کا بوجھ لا محالہ نچلے طبقے کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ وجود پا چکا ہے جو ہر طرح کی امداد میں سے حصہ وصول کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ میں روزانہ پڑھ رہا ہوں کہ بعض ایسے شعبے جو کئی دہائیوں سے عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں، وہ بھی امداد کے طالب ہیں اور حکومت سے امداد مانگ رہے ہیں، کاروباری افراد سے لے کر خدمات فراہم کرنے والے شعبہ جات سمیت ہر شعبہ بھوکی نگاہوں سے حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے اور مطالبہ کر رہا ہے کہ ان کو بھی امدادی پیکیج میں شامل کیا جائے۔
صرف ایک شعبے کے بارے میں آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا تاجر حضرات کی جانب سے حکومتی امداد کا مطالبہ جائز ہے، وہی تاجر جو ٹیکس دینے کو اپنی توہین سمجھتا ہے اور حکومت جب منت ترلہ کر کے اس سے معمولی ٹیکس کی رقم کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ ہڑتال کر دیتا ہے حالانکہ اگر وہ تھوڑا بہت ٹیکس دے کر ملک کی معیشت میں حصہ ڈالیں تو حالات میں بہت بہتری ہو سکتی ہے کیونکہ جس ملک میں بائیس کروڑ افراد زندگی بسر کر رہے ہوں ان کی ضروریات زندگی بھی اسی حساب سے ہوں گی اور ان ضروریات زندگی کو عوام تک پہنچانے کے لیے تاجرواحد ذریعہ ہیں اور اس درمیانی واسطے کی وجہ سے وہ اپنے جثے سے زیادہ حصہ وصول کرتے ہیں لیکن ٹیکس دینے سے ہمیشہ انکاری رہے ہیں۔ میرے خیال میں اب وہ وقت آگیا ہے جب عوام کو یہ سمجھ آجانی چاہیے اور اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ٹیکس کیوں ضروری ہوتا ہے اور حکومت اس کی وصولی کے لیے کیوں شور مچاتی ہے۔
یہی وہ وقت ہے جب عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام پر خرچ ہوتا ہے اور حکومت عوام کو ان کا ٹیکس کی مد میں جمع کیا گیا پیسہ واپس لوٹاتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کی خوشحالی کا سب سے بڑا راز یہی ہے کہ وہ ٹیکس کی مد میں حکومتی خزانے میں کمیٹی ڈالتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی مشکل میں حکومت ان کو زندگی کی تمام سہولیتیں فراہم کرے گی اور ہم سن رہے ہیں کہ ان ملکوں کی حکومتوں نے اس مشکل وقت میں اپنے شہریوں کو زندگی کی ہر سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بعض ممالک میں تو نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کی ذمے داری بھی حکومت نے اپنے ذمے لے لی ہے جب کہ ہمارے ہاں سیاسی قیادت کوابھی آپس کے جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں مل رہی، وہ گلے شکوے کرتے نظر آتے ہیں۔
کیا آپ نے سنا ہے کہ اس ملک کے کسی سیاسی لیڈر نے اپنی جیب ڈھیلی کی ہو اور عوام کے لیے امداد کا اعلان کیا ہو، وہی عوام جن کی مدد سے ان کی لیڈری چمکتی ہے لیکن ہمارے لیڈروں کو عوام کے پیسوں پر اپنی سیاست چمکانے کاچسکا لگا ہوا ہے، اس مشکل گھڑی میں جب عوام کو کچھ لوٹانے کا وقت ہے تو ہمارے یہ جماندروں قائدین اول تومنظر سے غائب ہیں اور جو نظر آرہے ہیں وہ ہمیں بیان بازی سے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستانیوں کواس مشکل وقت میں ان کی طرف سے ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی جو ہمیشہ ان کی عیاشیوں کی قیمت اداکر نے پر مجبور رہے ہیں۔