Ye Sarasar Qatal Hai
یہ سراسر قتل ہے

ہمارا لیب میں چوہوں کے ساتھ روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اصول واضح کیا گیا ہے کہ چوہوں کو آپ بے رحمانہ طریقے سے کبھی نہیں مار سکتے ہیں بلکہ کچھ مخصوص نشہ آور کیمیکل ایک خاص مقدار میں چوہے کو دینا ہوتے ہیں تا کہ وہ ایک پرسکون موت مر سکے۔ نا انکی مقدار کم دینی ہوتی ہے اور نا ہی زیادہ بلکہ ایک مخصوص مقدار دینا ہوتی ہے۔
یہ تو جانور کو لیبارٹری میں مارنے کی بات ہوگئی ہے۔ وہیں انسانوں کا بھی جب آپریشن ہوتا ہے تو انسانوں کو بھی ایک نشہ آور کیمیکل دیا جاتا ہے۔ اس کو ہم انستھیزیا دینا کہتے ہیں۔ اس پراسس میں بھی جو کیمیکل استعمال ہوتے ہیں ان کی ایک مخصوص مقدار ہوتی ہے اور یہ مقدار مریض کے وزن، صحت اور دیگر فیکٹر دیکھ کر طے کی جاتی ہے اور لمبے آپریشن میں ہر گھنٹے کی ڈوز دیکھی جاتی ہے اور اگر درمیان میں مریض کی حالت بدلے تو یہ مقدار بھی اپ ڈیٹ کی جاتی ہے۔
اب یہ نشہ آور کیمیکل یا انستھیزیا چوہوں یا انسانوں کے دل کی دھڑکن کو آہستہ کر دیتے ہیں اور جب دل کی دھڑکن آہستہ ہوتی ہے تو دماغ سونے لگتا ہے اور اس وجہ سے چوہا یا مریض وہ درد محسوس نہیں کر پاتا ہے جو ہونا تھی اور اگر یہ مقدار حد سے زیادہ بڑھا دی جائے تو چوہے یا مریض کی تھوڑی دیر کے بعد وفات ہو جاتی ہے۔
عام طور پر انستھیزیا کی زیادہ مقدار دینے کے نتیجے میں مریض کے دل کی دھڑکن اتنی آہستہ ہو جاتی ہے کہ اس کا بلڈ پریشر بہت کم ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں مریض کے جسم کے آرگنز تک خون کے ذریعے ملنے والی آکسیجن کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مریض کو سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ سر چکراتا ہے جسم ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور اگر اس حالت کو وقت پر کنٹرول نا کیا جائے تو چند ہی منٹوں یا گھنٹوں میں مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں انستھیزیا کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح حد سے زیادہ ہے۔ ان اموات کی وجہ خدا کا حکم کہہ کر چھپا دی جاتی ہے لیکن یہ سراسر ایک قتل ہے۔ جس میں انستھیزیالوجسٹ مریض کو حد سے زیادہ مقدار دے دیتا ہے اور یہ سراسر اس کی لاپرواہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ آپریشن سے پہلے ایگریمنٹ لیا جاتا ہے اس لئے آپ قانونی کاروائی نہیں کر سکتے ہیں۔
میں کتنے ہی لوگوں کو جانتا ہوں جن کا آپریشن کے بعد بلڈ پریشر نارمل نہیں ہوتا اور حد سے زیادہ گر جاتا ہے اور پھر آدھے گھنٹے یا کچھ مزید وقت کے بعد مریض کی سانس اکھڑنا شروع ہو جاتی ہے اور اس کی وفات ہو جاتی ہے۔
میرے نزدیک یہ موت سراسر قتل ہے جو کہ ایک ڈاکٹر کی حماقت، لاپرواہی یا بے دھیانی کی وجہ سے ہوا ہے۔ عموماََ لواحقین ایسے کیس پر کم علم ہونے کی وجہ سے کوئی ایکشن نہیں لیتے ہیں۔
ایسا ہی ایک اور لاپرواہی والا کیس جو پاکستان میں بہت عام ہے وہ مریض کو آپریشن کے فوری بعد انفیکشن ہو جانا ہے۔ یاد رہے اگر آپ کے آپریشن والی جگہ انفیکشن ہوگئی ہے اور اس پر وقت پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ انفیکشن خون میں جا سکتی ہے اور اس کے بعد آپ کی موت بالکل کنفرم ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی دوائی آپ کو نہیں بچا سکتی ہے۔
ڈاکٹر اس کو زخم میں پیپ پڑ جانا کہہ کر ٹال مٹول سے مریض کو اپنی لاپرواہی کا بتاتے ہی نہیں ہیں۔
اس لاپرواہی کی وجہ اپنے آپریشن والے آلات جراحی کو یا ڈاکٹر کا اپنے آپ کو سٹرلائز نا کرنا ہے اور یہ عموماََ کچھ پرائیوٹ ہسپتالوں میں خرچے سے بچنے یا ڈاکٹر کے حد سے زیادہ آپریشن میں مشغول ہونے کی وجہ سے دماغ حاضر نا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے اور مریض نا حق مارا جاتا ہے۔
لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ قاتل ڈاکٹروں کو اس قتل کے بعد نا معطل کیا جاتا ہے نا چھٹی دی جاتی ہے بلکہ یہ چند گھنٹے یا منٹ بعد کسی اور مریض کا آپریشن کر رہے ہوتے ہیں۔ مجھے تو ان قاتلوں پر حیرت ہوتی ہے کہ آپ ایک غریب کا گھر اجاڑ کر کتنے سکون سے اپنا گھر پالنے کے لئے کسی اور کی چیڑ پھاڑ میں لگ جاتے ہیں۔ مگر یہ بہت کامن بات ہے اور ڈاکٹر اس ضمن میں تنقید کیا مثبت مشورہ بھی برداشت نہیں کرتے۔
میرے خیال میں اور مہذب دنیا کے اصول کے مطابق ایسے قاتلوں کو ساری عمر کسی اور انسان کا علاج کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور ان کا لائسنس کینسل کرنا چاہیے لیکن پاکستان میں ایسے کئی ڈاکٹر سرجن ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنی لاپرواہی کی وجہ سے درجن سے اوپر مریض مارے ہیں لیکن یہ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ اس کو خدا کے حکم پر ڈال کر کبھی احساس ندامت کا بھی اظہار نہیں کرتے ہیں۔