Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaigham Qadeer/
  4. Mujh Se Baatein Karo (1)

Mujh Se Baatein Karo (1)

مجھ سے باتیں کرو (1)

سب کہہ رہے تھے کہ مائی سٹھیا گئی ہے، بڑا بیٹا سب سے آگے تھا جو کہ کہہ رہا تھا کہ بڑھاپے میں تو مائی بابے دونوں سٹھیا کر ہم پر عذاب بن گئے ہیں اور یہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں تا کہ ہم سب زچ ہو جائیں۔ اور وہ سب واقعی زچ ہو گئے تھے۔

انکی اماں جو پانچ سال پہلے ہنس مکھ تھی آہستہ آہستہ چڑچڑی ہونا شروع ہو گئی، ان کی عادتیں "خراب" ہونا شروع ہو گئی، کبھی مہمان آتے تو وہ بھدا سا لباس پہن کر سامنے آ جاتیں، ہر وقت طعنے اور کوسنے سنانے کو تیار رہتیں، اور تو اور گھر سے باہر جانے کے بعد گھر آنے کی بجائے ہمسائیوں پاس چلی جاتیں، اور آخر میں بہانہ بنا دیتیں کہ میں تو گھر کا راستہ بھول گئی تھی۔ بھلا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیس سال ایک ہی گھر رہنے کے بعد بندہ کچھ بھول جائے؟ سب ڈرامے بازی ہے بڈھی کی!

اور تو اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ چھوٹا جس نے ساری عمر مائی کا ناک میں دم کر رکھا تھا اب اسکا پسندیدہ ہو گیا تھا۔ بیٹیوں کو ہر وقت پیار اور بہو کو طعنے، بڑے بیٹے کو تو تسلیم کرنے سے ہی انکاری، اللہ معاف کرے بڑھاپے کی ان ڈرامے بازیوں کو۔

بڑا بھائی آج تپا ہوا تھا اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے خود پہ کنٹرول کرے مگر آج وہ پھٹ پڑا اور ماں جی کی ایک ایک خامی کھول کر بیان کر دی ان کے مطابق یہ محض ڈرامے بازی ہے۔ اور ماں جی جو پہلے اچھی بھلی تھیں اب جان بوجھ کر توجہ لینے کے لئے ایسی باتیں کرتی ہیں تا کہ ان کو ہم سے ایکسٹرا توجہ مل سکے۔ انہوں نے تو اپنی ان باتوں کی وجہ سے ہماری زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

مگر کیا واقعی یہ ڈرامے بازی ہوتی ہے؟

اوپر لکھے گئے تین پیراگراف ہر جوائنٹ فیملی کی کہانی ہے جہاں ساٹھ کی عمر کراس کرتے ہی کچھ والدین ایسی عجیب و غریب حرکتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اولاد اس کو ڈرامے بازی سمجھ کر ان سے برا برتاؤ کرتی ہے۔ اور وہ ان کی باتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے کیونکہ ہم میں شعور اور آگہی کی خاصی کمی ہے۔ ہمارے ہاں جہاں جسمانی بیماریوں کو توجہ نہیں دی جاتی وہاں نفسیاتی بیماری کو بیماری سمجھنا کافی ناممکن سی بات ہے اور ہم ایسے لوگوں کی باتوں کو ڈرامے بازی کہہ کر ان کی بیماری کو مزید جلا بخش دیتے ہیں۔

لیکن یہ ڈرامے بازی ہرگز نہیں!

ہمارے ہاں سب کو پیٹ کے خالی ہونے کا تو بہت خیال ہے مگر جذبات کے خالی ہونے کا کسی کو خیال نہیں، یہی بات ہے کہ کوئی کھانا نا کھا رہا ہو تو ہم اس کو منانا شروع کر دیتے ہیں وہیں اگر کوئی بس کھانا ہی کھا رہا ہو کوئی دوسری بات نا کرے تو اس پہ توجہ نہیں دیتے۔ کسی کی ایموشنل صحت کا خیال رکھنا بے حد ضروری چیز ہے مگر دماغی بیماریوں کے بارے میں ہماری آگہی نا ہونے کے برابر ہے۔

انسان جونہی بوڑھا ہونا شروع ہوتا ہے وہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بیماریاں کسی کے لئے آسیب بن جاتی ہیں تو کسی کے لئے ڈراؤنا خواب۔ ایک ایسا ہی ڈراؤنا خواب الزائمر کی بیماری ہے۔ اس بیماری میں انسان اپنی یاداشت کھونا شروع کر دیتا ہے۔ اور بھولنے کی اس بیماری کے نتیجے میں وہ چڑچڑا ہو جاتا ہے لیکن ہم اسے بڈھے کی ڈرامے بازیاں کہہ کر ان سے تلخی سے پیش آتے ہیں اور انکی بیماری بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ بوٹھے لوگ جو مانگتے ہیں وہ چیز حد سے زیادہ سستی اور قابل ثواب ہے۔ ان کو بس ہماری خدمت، توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہم لا علمی میں ان کو ہر طرح سے ہرٹ کرکے رکھتے ہیں۔

الزائمر کی بیماری ہے کیا؟

یہ ایک دماغی بیماری ہے جس میں ہمارے دماغ کے خلیے مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور ہمارا دماغ سکڑنے لگتا ہے۔ دماغ کے اس سکڑنے کی وجہ سے اس مریض کے سوچنے کی صلاحیت، سماجی برتاؤ اور روز مرہ کے امور کی صلاحیت ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ الزائمر کی بیماری ایکدم سے نہیں ہوتی بلکہ وقت کیساتھ ساتھ یہ شدت اختیار کرتی ہے۔

اس وقت دنیا میں وہ بوڑھے افراد جو یاداشت کھو جاتے ہیں ان کا 60-70% حصہ اس بیماری کا شکار ہے اور عموما 75 سال سے اوپر کی عمر میں اس بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ اور اس بیماری کا اس وقت تک کوئی علاج نہیں ہے یہ بیماری ایک بار شروع ہو جائے تو رک نہیں سکتی کیونکہ جو خلیے مر جاتے ہیں ان کو ہم دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارا دماغ ایک طرح کی یاداشت مختلف حصوں میں محفوظ کرکے رکھتا ہے اس لئے انہیں اکثر ایسی چیزوں کی یاد رہ رہ کر آجاتی ہے مگر کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں کہ یہ پاس رکھی ایک چیز تک کو بھول جاتے ہیں۔

الزائمر کی علامات کیا ہیں؟

الزائمر کی سب سے بڑی علامت یاداشت کا کھو جانا ہے۔ اور سب سے ابتدائی علامت یہ ہے کہ وہ شخص چھوٹی چھوٹی چیزوں کو یاد کرنے میں مشکل محسوس کرنا شروع کر دے گا۔ ان کی روٹین ڈسٹرب ہونا شروع ہو جاےی ہے۔ عام طور پہ قریبی عزیز اگر تھوڑی سی توجہ دیں تو وہ اس کا پتا لگا سکتے ہیں۔ ان ابتدائی علامات میں سے کچھ یہ ہیں۔۔

ایک ہی بات یا سوال کو بار بار دہرائے جانا،باتوں کو انجانے میں بھول جانا،چیزوں کو غلط جگہ رکھ دینا،غیر عقلی حرکتیں یا باتیں کرنا،اپنے گھر کا راستہ بھول جانا یا اپنی جگہوں کو بھول جانا،اپنے رشتہ داروں کے نام بھول جانا۔

الزائمر کی وجہ سے سوچنے اور ریزن کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ آغاز میں یہ چھوٹی چھوٹی روز مرہ کی چیزوں کے بارے میں ختم ہونا شروع ہوتی ہیں وہیں آخر میں یہ ہر چیز کو بھولنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ سازی کی صلاحیت کو کھو کر عجیب و غریب فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سماجی محافل پہ بچگاانہ حرکتیں اور بے جا غلط چیزیں چننا اسی کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ رفتہ رفتہ یہ پلان کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیتے ہیں اور بعض اوقات کپڑے پہننا یا نہانا تک بھول جاتے ہیں۔

الزائمر کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

ابھی تک کے علم کے مطابق ہمیں محض اتنا پتا ہے کہ بڑھاپے کیساتھ اکثر ہمارے دماغ میں موجود کچھ خامرے اپنا فنکشن کھو بیٹھتے ہیں جس کے نتیجے میں قریبی نیوران سیل مر جاتے ہیں۔ اگر ایک دماغی نیوران سیل مر جائے تو یہ باقی خلئیوں کی موت کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بیماری ہوتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ ماحولیاتی عوامل، جینیاتی فیکٹر اور ہمارا لائف سٹائل ہے۔

جینیات کا کردار کیا ہو سکتا ہے؟

اگر کسی کے والدین کو یہ بیماری ہے تو اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ اسے بھی یہ بیماری ہو گی کیونکہ ایک جین APOE کو اس بیماری کیساتھ حد سے زیادہ جڑا دیکھا گیا ہے۔ یہ وراثتی طور پہ والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے اور اکثر امکان یہی ہوتا ہے کہ اس کا اظہار بھی ہوگا جس کے نتیجے میں اولاد کو بھی بڑھاپے میں یہی بیماری ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر گھر کا ماحول حد سے زیادہ تلخ ہے اور بڑھاپے میں کوئی اچھے سے برتاؤ نہیں کرتا تو تب بھی اس بیماری کے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یا پھر اگر ہم ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں اور دماغی اور جسمانی ورزش سے گریز برتتے ہیں تو تب بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ سو ان سب سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

الزائمر میں دماغ میں کیا ہوتا ہے؟

ہمارا دماغ سو ارب سے زیادہ نیوران سیلز یا عصبی خلیوں سے مل کر بنا ہے ان تمام خلیوں کا کام الگ الگ ہے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ اور باہم مل جل کر کام انجام دیتے ہیں۔ جیسے شعوری صلاحیتیں، بولنا، سننا وغیرہ، آپ ان حصوں کو چھوٹی فیکٹریاں سمجھ سکتے ہیں۔ ان فیکٹریوں کا ایندھن آکسیجن اور غذا سے ملتا ہے۔ اب الزائمر کی وجہ سے کچھ فیکٹریاں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں جس کی وجہ سے باقی کے کام بھی متاثر ہو جاتے ہیں اور دماغ اپنا فنکشن کھو دینا شروع کر دیتا ہے۔

الزائمر کا رسک فیکٹر کیا ہے؟

ابھی تک کے علم کیمطابق الزائمرز کا سب سے بڑا رسک فیکٹر بڑھتی ہوئی عمر ہے۔ اس وقت الزائمر کا شکار زیادہ تر لوگ ڈھلتی عمر کے ہیں اور ان کی مجارٹی کی عمر 65 سال سے اوپر ہے۔ لیکن یہ بات کم عمری میں الزائمر کے نا ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ بڑھاپہ شروع ہونے کے دوران مطلب 65 سے پہلے بھی یہ ہوسکتی ہے اور اسے ہم ارلی اونسٹ الزائمر بھی کہتے ہیں۔

الزائمر کا کوئی علاج نہیں ہے!

اس وقت ہمارے پاس اس بیماری کا کوئی علاج دستیاب نہیں۔ ہاں ایک تھیراپی جس کا نام aducanumab (Aduhelm) ہے اس میں ایملائڈ نامی حصے کو ہٹا دیا جاتا ہے اس کے نتیجے میں دیکھا گیا ہے کہ مریض میں یاداشت کھونے کی رفتار اور شعوری صلاحتوں میں کمی کی صلاحیت پہ ایک حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ لیکن یہ ابھی تک حتمی علاج نہیں ثابت ہو سکی۔ ان کے علاوہ دیگر طریقہ ہائے علاج کا بھی بنیادی فوکس اس بیماری کی علامات جیسا کہ یاداشت کھونے کو کنٹرول کرکے آہستہ کرنا ہے اور مریض کے جینے کے معیار کو بلند کرنا ہے۔ جدید ریسرچ کا اس وقت بہت زیادہ فوکس اس بیماری کے علاج کو دریافت کرنے کی طرف ہے اور امید ہے کہ جلد یا بدیر یہ مل سکتا ہے۔

الزائمر سے بچنے اور اس کے مریضوں کے علاج کے لئے ان کا لائف سٹائل بہتر رکھنا ضروری ہے۔

چونکہ عورتیں مردوں سے زیادہ جیتی ہیں تو انہیں یہ بیماری ہونے کا خدشہ حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنا لائف سٹائل ہیلتھی رکھنا چاہیے اور ایسی خوراک کھانی چاہیے جو کہ صحتمند آئلز رکھتی ہو اور بازاری گھی کم رکھتی ہو۔ اسکے علاوہ اگر گھر میں کوئی ایسا مریض ہے تو اس کے ساتھ حد سے زیادہ پیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ خود پہ قابو نہیں پا سکتے سو انکی باتوں کو درگزر کرنا سیکھنا چاہیے۔ اور سب سے اہم بات والدین کیساتھ ساٹھ سال کی عمر کے بعد بات چیت حد سے زیادہ بڑھا دینی چاہیے کیونکہ سوشلائزیشن اس بیماری کے خطرے کو کم کر دیتی ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے والدین پہ غصہ کرنے کی بجائے ان کی اس بیماری کا خیال رکھتے ہوئے ان سے باتیں کرنی چاہیں۔

اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے حلقہ احباب خاص کر اپنے والدین کی خدمت کیا کریں۔ کیونکہ بڑھاپے میں قدم رکھتے ہی ان کو ایسی طرح طرح کی دماغی بیماریاں ہونے کا خدشہ رہتا ہے اور ان سے چھٹکارہ تو ممکن نہیں مگر ہم توجہ اور پیار دیکر ان میں ان بیماری کی تکلیف کا احساس کم کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے الفاظ یا تو اگلے کا دل رکھ سکتے ہیں یا دل توڑ سکتے ہیں سو ان سے باتیں کریں ان کا دل رکھیں کیونکہ یہ بہت معصوم ہیں۔

Check Also

Kya Irani Mazhab Bezaar Hain?

By Syed Jawad Hussain Rizvi