Imran Khan Ki Sab Se Bari Siasi Ghalti Kya Hai?
عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کیا ہے؟
اگر مجھ سے یہ سوال پوچھا جائے تو میں آنکھیں بند کرکے کہوں گا اپنے اتحادیوں کے ساتھ بدلنا اور کوئی بھی قومی سطح پر مقبول اتحادی نا بنائے رکھنا عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی رہی ہے اور اسی غلطی کی وجہ سے عمران خان آج پھنسا ہوا ہے۔
عمران خان پاکستان کی تاریخ کا سب سے مقبول سیاستدان ہے۔ اس کا موازنہ نوازشریف، بھٹو یا ایسے کسی سیاستدان سے نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کبھی بھی قومی سیاستدان نہیں رہے ہیں بلکہ یہ پنجابی، سندھی یا اس قبیل کے علاقائی سیاستدان رہے ہیں اور ان کی سیاست کا سارا محور اسی کے گرد گھوم کر یہیں ختم ہو جاتا ہے، لیکن عمران خان کی سیاست ہی قومی ہیرو ازم سے شروع ہوئی تھی۔
جہاں ابتداء میں عمران خان کے ساتھ کوئی بھی نہیں کھڑا تھا وہیں پر دو ہزار دس تک یہ سیاست میں اپنے قدم مضبوط کرنا شروع ہوگئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں یہ اچھی خاصی مقبولیت لے کر آگے آئے اور کے پی میں انہوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔
لیکن یہاں ایک اہم تاریخی موڑ آیا جس نے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے درمیان نفرت کا وہ رشتہ قائم کر دیا جو ابھی تک قائم ہے اور ان دونوں جماعتوں کے ورکر ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔
یہ موڑ دھرنا تھا۔
عمران خان نے جب دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا تو اس کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے تھے۔ کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ اس دھرنے کو اوپر والے ہاتھوں کی آشیر آباد تھی۔ لیکن یہ کہنے والے خود آج کل پورا پورا بوٹ اپنی زبان سے دن رات چمکانے پہ لگے ہوئے ہیں سو ان کی بات پر اعتماد کرنا فضول ہوگا۔
لیکن اس دھرنے نے جہاں خان کو مقبولیت دی وہیں پر اس کے اندر انا کا ایک بہت بڑا زہر بھر دیا اور یہاں سے اس خان کا آغاز ہوا جس کے نزدیک اتحاد بنانا سیاسی غلطی ہے اور اس کے علاوہ پاکستان میں موجود ہر دوسری سیاسی جماعت اول سے لے کر آخر تک غلط ہے۔
اس دورانیے میں جماعت اسلامی عمران خان سے اتحاد قائم رکھنے کی مکمل کوششوں میں رہی لیکن نا انہیں کے پی حکومت میں مرکزی کردار ملے اور نا ہی ان کو اگلے الیکشن میں اتحاد بنانے کی کوئی یقین دہانی ملی اور اس دھوکہ دہی پر جماعت کا ایک عام کارکن تک متنفر ہوگیا اور یہیں سے جماعت اور پی ٹی آئی کے درمیان نفرت کی جنگ کا آغاز ہوا۔
اس جنگ پر تیل چھڑکنے کا کام سراج الحق صاحب کی دوغلی پالیسیوں نے ادا کیا۔ جہاں وہ اپنے دس سال امارت کے دور میں کوئی صاف اور شفاف سٹینڈ لینے میں ناکام رہے وہیں پر ان کی انہی دوغلی پالیسیوں پر پی ٹی آئی کے کارکنان کی پھبتیوں نے جلتی پر تیل کا کام ادا کیا اور نفرت کی یہ جنگ بڑھتی چلی گئی۔ کہنے کو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہو سکتا ہے عمران خان نے سراج الحق کے ساتھ اتحاد قائم نا رکھنے کا فیصلہ شائد اسی لئے کیا ہو کیونکہ سراج الحق خود اس بات کے بارے میں کبھی کلئیر نہیں رہے تھے کہ وہ سکے کے کس رخ کے ساتھ ہیں؟ کیا وہ کسی ایک جماعت کا ساتھ دے سکتے ہیں کہ نہیں؟ انہیں اپنی امارت چھوڑنے کے آخری دن تک اس بات کا علم نہیں تھا اور یوں وہ اپنے عام کارکن کو شناخت کے بحران میں چھوڑ کر چلے گئے جس کی زندگی کا اب واحد مقصد عمران خان سے نفرت کرنا رہ گیا ہے۔
یہاں عمران خان نے اپنی غیر لچک دار پالیسی کی وجہ سے سٹریٹ پاور والا ایک اہم اتحادی کھو دیا۔
دوسری بڑی غلطی عمران خان کا فضل الرحمان کے ساتھ پنگے بازی لینا رہی ہے۔ آپ چاہے ان پر کوئی الزام لگا لیں لیکن ایک بات آپ کبھی اگنور نہیں کر سکتے کہ جیسے آلو کی کمی خالی گوبھی کھا کر یا گاجروں کے سالن میں محض گاجریں دیکھ کر ہوتی ہے ویسے ہی پاکستانی سیاست میں جب تک فضل الرحمان زندہ ہیں ان کی اہمیت ان کی غیر موجودگی میں پتا لگتی ہے اور یہ اہمیت فضل الرحمان نے بار ہا ثابت کی ہے۔
اس غلطی کو غلطی نا کہنے والے یہ کہہ کر جسٹیفائی کریں گے کہ عمران خان کے دھرنے اور جلسوں وغیرہ پر فضل الرحمان گروپ گھٹیا تنقید کرتا رہا ہے اس لئے اسے غلط کہنا بنتا ہے لیکن سیاست ایسے نہیں چل سکتی ہے۔ خاص کر تب جب آپ پورے ملک کی مقبول ترین جماعت بن رہے ہوں۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ عمران خان دل بڑا کرکے ان کے ساتھ صلح سے کام لیتا کیونکہ فضل الرحمان کی سب سے بڑی کمزوری طاقتور گروپ ہوتی ہے جہاں حکومت بنانے والا گروپ ہو وہاں یہ جانا چاہتا ہے ایسے میں اس گروپ کو اپنا دشمن بنا کر عمران خان نے دوسری بڑی غلطی کی۔
فضل الرحمان گروپ کی اہمیت کا اندازہ حالیہ قانون سازی میں سامنے آ چکا ہے کہ کیسے وہ ایک ایسی قانون سازی کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوگیا ہے جو کہ اس کے بد ترین سیاسی مخالف کے خلاف استعمال ہونی تھی۔ یہاں آپ آنکھیں بند کرکے فضل الرحمان کو نسلی دشمن بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ دشمنی نبھا رہا ہے مگر قواعد کے ساتھ نبھا رہا ہے۔
وہیں پر تیسری اور سب سے بڑی غلطی عمران خان نے ان کے ساتھ دوستی کرکے کی جن کے ماضی کو یہ بہترین طریقے سے جانتا تھا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا کوئی بھی سیاسی دوست باقی نہیں رہا ہے اس نے اس پر اعتماد کیا اور اب وہی دوست اپنی ڈنڈے پر تیل لگائے ان کے ساتھ دو دو ہاتھ ہو رہا ہے۔
اب اگر عمران خان کے سیاسی دوست ہوتے تو چاہے اس کے اپنے ایم این اے بک جاتے لیکن اس کے اتحادی جو کہ طاقتور گروہ ہونا تھے نا کہ انہی کے کٹھ پتلی جنہوں نے سازش کی ہے تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی اور عمران خان اتنا نا پھنسا ہوتا بلکہ یہ ابھی بھی حکومت میں ہی ہوتا۔
لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ آج اس کی جماعت پر تشدد ہوتا ہے تو کوئی نہیں مذمت کرتا کیونکہ جب یہ طاقت میں تھا تو یہ کسی کی فون کال تک سننا گوارا نہیں کرتا تھا سب وہ لوگ کیسے طاقتور سے ایسے شخص کے لئے پنگا لیں جو ان کے ساتھ دوستی کرکے بھی توڑ چکا ہے۔
مگر اس سب کے باوجود ابھی بھی وقت سر سے نہیں گزرا اور ابھی بھی ان کے پاس وقت ہے کہ اتحادی بنا لیں۔ اکیلے وہ اس سسٹم سے لڑ تو سکتے ہیں سروائیو بھی کر سکتے ہیں لیکن جیت نہیں سکتے ہیں۔ اکیلی جماعت ایک ایسے سسٹم میں سروائیو نہیں کر سکتی ہے جو کہ ہے ہی ملٹی پارٹی سسٹم، اور دوسرا اتحادی ہونے کا سب سے بڑا فائدہ عوام کی موبالائزیشن میں ہے۔ اب جب پی ٹی آئی کو جلسے کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو سوچیں دو ہزار تیرہ کی طرح جماعت اسلامی اتحادی ہوتی تو کیا ایسا مسئلہ درپیش آتا؟ ہرگز نہیں، یہ تقریبا ناممکن ہونا تھا۔
اس سے ہٹ کر اتحادیوں کی اہمیت کا اندازہ پنجاب میں چلنے والے بندر تماشے میں بھی ہوا تھا جب پرویز الہی نے عمران خان کا ساتھ دیا۔ سنی تحریک بھی ایک اہم مثال ہے مگر ایک دو حلقے کے سیاستدانوں کا اتحادی ہونے کا فائدہ نہیں ہے۔ کسی قومی سطح کی دوسری جماعت کو اب بھی اتحادی بنا کر اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا وقت ہے۔ کیونکہ عمران خان اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ اگر ایسے ہی لگے رہے تو قیامت آ جائے گی لیکن عمران خان جیل سے باہر ہرگز نہیں آ پائے گا۔