1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Time Machine

Time Machine

ٹائم مشین

سوسن کا اپنی بہن سے بہناپا کم دوستانہ ہے۔ دونوں الگ الگ شہروں میں رہتی ہیں ملنا ملانا ممکن نہیں گھریلو مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ فرصت نہیں ملتی۔ یوں بھی چار پانچ گھنٹے کا بائے روڈ سفر بری طرح تھکا دیتا ہے سو جس کا بھی جی اداس ہوتا ہے وٹس ایپ کی برق رفتار سواری استعمال کرتے ہوئے دوسری بہن کے گھر کی کنڈی کھٹکھٹا دیتی ہے۔ ویڈیو کال پہ دونوں بہنیں ایک دوسری کے آمنے سامنے موجود ہوتی ہیں گپ شپ بھی لگ جاتی ہے اور کام کاج بھی چلتے رہتے ہیں۔

کسی کسی سہانی سی شام میں دونوں اپنا اپنا چائے کا کپ بنا لیتی ہیں اور چائے کی چسکیوں میں ہلکی گپ شپ کا مزہ بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ سردی کا موسم ہو تو لحاف میں گھس کے اور اپنی اپنی پلیٹ میں ڈرائی فروٹس ٹونگتے یہ گپ شپ دوری کا احساس مٹا دیتی ہے والدین کے انگنا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ تمام بہن بھائی اور گزرے وقت کی یادیں بھی دہرا لی جاتی ہیں۔ ہمارے بڑوں نے ایسا کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔

بچپن میں جب واقعہ معراج پڑھا تھا تو یقین صرف مذہبی عقیدت کی وجہ سے تھا لیکن سائنسی ایجادات اور ذاتی تجربات نے یقین کو کامل پختگی عطا فرما دی ہے ہادئ برحق نبی آخرالزماں ﷺ سات آسمانوں کی سیر بھی کر آئے اور حجرہ مبارک کی کنڈی ابھی تک ہل رہی تھی۔ یہ موبائل فونز بڑی خوبصورت اور باسہولت ایجاد ہیں۔ وٹس ایپ آپ کو لمحوں میں اپنے پیاروں کے پاس پہنچا دیتے ہیں۔

ماں کو دیکھنے کا اور کچھ پوچھنے کا من تھا ذہن کے پردے میں ماں کا چہرہ جگمگایا سوسن نے بہن کو کال ملائی پتہ چلا ماں تو سو رہی ہیں، بہن نے کیمرے کا رخ ماں پہ فوکس کیا ٹھیک ہے ماں کو سونے دو۔ اس نے بھی دھیرے سے چادر کا کونا اٹھایا اور تخیل کی مدد سے ماں کی گود میں سر رکھ دیا۔ کبھی کبھی تو اپنے پیاروں کو صرف تخیل کرنا بھی بہت پرکشش لگتا ہے۔ آج کی نسل شاید تخیل کی قوت سے خالی ہے یا یہ صلاحیت کہنگی کا شکار ہو کے بوسیدہ اور متروک ہو چکی ہے۔

چیزوں کو تخیل کرنا بہت شاندار اور مزے کا کام ہے۔ تخیل کی وسعت لا محدود ہے مجسم نظارہ تخیل کی وسعت چھین لیتا ہے کہ تخیل کو مجسم دیکھ لینے کے بعد پرواز کی طاقت نہیں رہتی۔ سوسن آج صبح سے اس تخیل اور مجسم کی ادھیڑ بن میں لگی تھی اصل میں اسے سیب کے مربے کی ترکیب چاہئے تھی۔ یوں تو یو ٹیوب پہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہیں۔ اسے اپنی خاندانی ترکیب سے مربہ بنانا تھا جس میں باپ کی شفقت اور ماں کی محنت اور محبت بھی شامل ہو۔

اس نے بڑی محبت اور نرمی ماں کو دماغ میں مجسم کیا ماں تین چار مرتبہ مربے کے ساتھ الجھتی سلجھتی نظر آئیں اس الجھن اور سلجھن کے بیچ میں سے وہ نایاب ترکیب برآمد ہو ہی گئی جو اسے چاہئے تھی۔ ماں کے سیاہ بالوں میں کہیں کہیں چاندی کے تار چمک رہے تھے ماں بے حد پھرتی سے روزمرہ کے کئی کام نمٹا رہی تھیں چولہے پہ سیب کا مربہ پکنے کے آخری مراحل میں تھا۔ اس نے پہلے کے تمام مراحل ذہن میں اپنے تخیل کی مدد سے زندہ کر لئے تھے۔ اگلے چوبیس گھنٹوں میں مرّبہ تیار ہوگا۔

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari