Zindagi Mein Maqsadiyat
زندگی میں مقصدیت
عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد
کبھی کبھی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جس زندگی میں مقصدیت اور خوشیاں بھرنے کے لیے ہم سب بیل بنے ہوئے ہیں اور بے سمت دوڑ رہے ہیں ایسی زندگی کس کام کی؟ ہم سے بہتر فیملی لائف تو جانوروں کی ہے جو زیادہ تر وقت ایک ساتھ گزارتے ہیں اور انہیں کوئی عجلت بھی نہیں کیونکہ وہ اپنے ایجاد کردہ وقت اور تقسیم کار کے قیدی نہیں بلکہ فطرت کے بنائے ہوئے ٹائم ٹیبل کے تحت زندگی سے نباہ کر رہے ہیں۔
برا ہو ترقی کا جس نے اشیا اور لالچ تو عطا کردی مگر کوالٹی ٹائم چھین لیا۔ ہندوستان پاکستان میں بسنے والوں یعنی ہماری اوسط عمر ستر برس کے لگ بھگ ہے یعنی پچیس ہزار پانچ سو پچاس دن۔
اب ان ستر برسوں کو آپ مختلف خانوں میں تقسیم کرکے دیکھیں۔ لگ بھگ ایک تہائی عمر یعنی تئیس برس نیند میں گزر جاتے ہیں۔ باقی سینتالیس میں سے اکیس برس بیٹھ کر کام کرنے، ٹی وی دیکھنے، سستانے، فون یا انٹرنیٹ پر، جلنے کڑھنے یا تصوراتی دنیا میں صرف ہوجاتے ہیں۔ اب بچے چھبیس برس۔ ان میں سے اوسطاً پندرہ برس ہوش سنبھالنے سیکھنے سکھانے اور کام کی تلاش میں گزر جاتے ہیں۔ اب باقی رہ گئے گیارہ برس۔
ان گیارہ برسوں میں سے بہت ہی کوئی طرم خان ہوا اور اسے زندگی کی مشقت نے مہلت دی تو چار برس اپنی مرضی کے کام (لکھنا، پڑھنا، کھیلنا، سیاحت، فنونِ لطیفہ) میں بسر کرنے کا موقع مل گیا۔ مگر یہ سب کرنا ہمیں اکثر تب یاد آتا ہے جب بقول ساقی امروہوی
میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا
مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے
صاحبو، جاب یا کاروبار کو وقت دو، اپنی فیملی کو دو، دوستوں کو وقت دو، اپنے عزیز و اقارب کو دو، اپنے اردگرد بسے لوگوں کو دیکھو۔ اپنی زندگی سنوارنے پر وقت دو۔ اپنے Legacy چھوڑنے پر وقت لگاؤ۔ اپنی مشکلات کا حل اپنے خیرخواہوں اور ملنے والوں سے مانگو۔ اپنی انرجی درست سمت میں لگاؤ۔ انسان کی کُل زندگی قابل شمار گھنٹوں پر محیط ہے جس میں سے انسان آدھی زندگی سو کر گذارنے میں بِتا دیتا ہے۔ باقی آدھی میں سے آدھی کاوشِ روزگار میں۔ باقی جو بچتی ہے وہ بود و باش کے مسائل کی نذر ہو جاتی ہے۔ ارے بھائی جو زندگی میں چند گھنٹے فرصت کے میسر آ ہی جائیں وہ تو بے مقصد بیکار ناں گنواؤ۔
ایک عمر ہوتی ہے جب انسان آئیڈیل کی تلاش میں ہوتا ہے۔ وہ کئیں انسانوں سے ان کے کسی کام کی بدولت متاثر ہوتا ہے۔ ان سے ملنا چاہتا ہے یا ان جیسا بننا چاہتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ سارے بُت خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں یا آئیڈیل لوگ خود ہی توڑ دیتے ہیں۔ میں نے بہت سے اپنے آئیڈیلز کے بُت کو ٹوٹتے دیکھا ہے۔ انسان وہ نہیں ہوتے جو دور سے نظر آتے ہیں۔ آپ بس کسی کے فن کی حد تک رہیں تو خوش رہیں گے۔ اسے جاننا، ملنا، یا اس سے کوئی توقع پالنا قطعً غیر ضروری ہوتا ہے۔ وہ میں ہوں، زید ہو یا بکر ہو۔
فیسبک اور سوشل میڈیا پر گزارے وقت کا نوے فیصد وقت کا ضیاع ہے۔ باقی دس فیصد اس واسطے کارآمد ہے کہ کچھ تازہ خبریں، سماجی ایشوز اور دوستوں کے معاملات دھیان میں آتے ہیں۔ اس کے سوا ہم اِدھر اُدھر جو وقت بِتا دیتے ہیں وہ غیر ضروری ہوتا ہے۔
مغرب نے پانچ سو برس پہلے اور جاپانیوں، کوریائیوں، چینیوں نے پچھلے سو سال کے دوران یہ راز پا لیا کہ وقت کو طاقت میں کیسے بدلا جا سکتا ہے۔ ہنرمندی و تعلیم سے بے وقعت وقت کو قیمتی کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ اسے پیداواری دولت کی شکل کیسے دی جا سکتی ہے۔ وقت کو سرمایہ سمجھنے والے ممالک میں باقاعدہ حساب رکھا جاتا ہے کہ قوم نے اجتماعی طور پر کتنے پیداواری گھنٹے برتے یا ضائع کیے اور اس اسراف کو اگلے ہفتے، مہینے یا برس میں کیسے کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔۔
حیرت ہے جس ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے ہو، جہاں افرادی قوت کی کمی نہ ہو، وہاں اکثریت کے پاس فرصت ہی فرصت ہے۔ دن باتوں، تبصروں، سوشل میڈیا اور غیبتوں میں گزر جاتا ہے اور رات کی قبر سے اٹھنے والا ایک نیا دن پھر سے سب کو دبوچ لیتا ہے۔ دن دبے پاؤں مہینوں اور برسوں اور عشروں میں بدلتے جاتے ہیں اور خواب میں ترقی کے عادی لوگوں کی اکثریت سے قبرستان بھرتے جاتے ہیں
بے دلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے