Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Abba Jan Ki Hisab Wali Diary

Abba Jan Ki Hisab Wali Diary

ابا جان کی حساب والی ڈائری

بیٹا! میری حساب والی ڈائری لے کر آنا، جب مہمان گھر سے چلے جاتے، ابا جان سب سے پہلے یہی کہا کرتے تھے۔ بچپن سے ابا جان کا یہ شغل دیکھتے آئے تھے، ایک دن میں نے حوصلہ کرکے ابا جان سے پوچھ لیا کہ ابا جان! یہ بتائیے، کہ آپ کے بہن بھائی اور ان کی اُولاد جب مہمان بن کر گھر آتی ہے تو آپ بطور میزبان ان کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جب مہمان رخصت ہو جاتے ہیں، آپ ان کی خاطر مدارات کا حساب اس ڈائری میں نہایت احتیاط سے درج کرتے ہیں، اس کی بظاہر کوئی وجہ مجھے سمجھ نہ آسکی، اس لیے ہمت کرکے آج آپ سے پوچھ لیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔

والد محترم نے جواب میں فرمایا: یہ اس لیے کرتا ہوں کہ میں گھر کا بڑا فرد ہوں، میرے بہن بھائی اور دیگر اعزا و اقارب میرے گھر آتے ہیں، مرضی سے جو کھانا چاہیں، منگواتے ہیں، تحفے میں جو لینا چاہیں، انھیں دیا جاتا ہے۔ ان کی بطور مہمان میزبانی کرنا میرا مذہبی، اخلاقی اور سماجی فرض ہے جسے میں بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتا ہوں تاہم یہ احتیاط ضرور کرتا ہوں کہ جو تحائف اور منہ سے بول کر یعنی اصرار کرکے یہ لوگ لے کر جاتے ہیں، میں اُسے تاریخ وار خریدی گئی عین رقم کے ساتھ مع رسید کے لکھ لیتا ہوں تاکہ کیفیت و موقع محل مع سند یاد رہے اور وقتِ ضرورت کام آے۔

میں نے ابا سے کہا کہ ان تحائف کو لکھنے کی ضرورت کیا ہے، اِسلام میں تحفہ دینا اور مہمان کی خدمت کرنا میزبان پر فرض ہے اور اس معاملے میں بساط سے بڑھ کر خدمت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابا جان نے فرمایا! تم نہیں جانتے، تم ابھی بچے ہو، ہمارا سماج اسلام کے اِن اُصولوں کے برعکس چلتا ہے، یہاں اسلام کے نام پر جو زیادتی ہم کرتے ہیں، وہ ہمارے لیے مصیبت کا باعث بن جاتی ہے۔ مشترکہ جائیداد کی تقسیم کے معاملے میں اِسلام کے جملہ اُصول سے انحراف برتا جاتا ہے، چھوٹے بڑے کی عزت، حق اور احترام و آداب کا خیال بُھلا دیا جاتا ہے، پاکستانی سماج میں اِسلام کا مطلب اپنے فائدے میں آنے والی چیز کو خوش آمدید اور ہاتھ سے جاتی چیز کے لیے سماج کے اُصول عمل پیرا کیے جاتے ہیں۔

پاکستانی سماج یعنی وہ معاشرہ جس میں ہم رہتے ہیں، یہاں جو جتنا منافق، کام چور، لالچی، مفاد پرست اور موقع پرست ہوگا، وہ اُتنا ہی فائدہ اُٹھائے گا اور ظلم و جور کا قائل ہوگا۔ پاکستانی سماج میں اُصول بنا کر زندگی گزارنے کا مطلب پورے سماج کو اپنے خلاف کر لینا ہے، اسلام فطرت کے اُصول پر کام کرتا ہے جبکہ یہ سماج ذاتی مفاد پرستی کے اُصول پر کام کرتا ہے۔

ابا جان کی یہ باتیں میرے اُوپر سے گزر گئیں، میں جی، جی کرتا رہا لیکن کچھ سمجھ نہ سکا، میری ہیجانی کیفیت کو بھانپ کر ابا جان نے کہا: خیر، یہ باتیں تمہیں سمجھ نہیں آنی والیں، ہاں، ایک وقت آئے گا، جب تمہیں ان باتوں کی صداقت کا علم روزِ روشن کی طرح یقین کے ساتھ ہو جائے گا، ابھی تم یہ ڈائری لو اور اسے فلاں صندوق میں رکھ دو۔ یہ معمول کا واقعہ تھا، ہفتہ، دس دن بعد کوئی نہ کوئی مہمان آتا رہتا تھا اور ہم بہن بھائی ابا جان کو اس ڈائری میں حساب کتاب لکھتے دیکھا کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا، ہم جوان ہو گئے اور ابا بوڑھے ہوگئے، ڈائری کے ورق ایک ایک کرکے سیاہ ہوتے گئے اور شائد ایک آدھ صفحہ باقی رہ گیا تھا۔

ایک دن توقع کے برعکس ابا جان کے بہن، بھائی مع آلِ تمام کے ہمارے گھر آدھمکے، ہم سب حیران رہ گئے کہ یہ تیس چالیس لوگ اچانک یوں بغیر اطلاع دئیے رات کے اِس سمے خیریت سے آئے ہیں۔ اماں جان نے جلدی جلدی سب کے کھانے پینے کا بندوبست کیا، ان کے سونے کے بستر لگوائے، سردی ہونے کی وجہ سے زیادہ پریشانی نہ ہوئی، آرام سے سبھی بڑے دلان میں چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ خیر و عافیت کے بعد معلوم ہوا کہ ابا جان کو ہارٹ اٹیک آیا ہے جس کی کانوں کان ہمیں خبر نہ ہوئی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اماں جان اور بڑی باجی کو معلوم ہے لیکن ہم چھوٹے بہن بھائیوں کو اس صدمہ کی خبر سے شعوری طور پر لاعلم رکھا گیا ہے تاکہ ہم پریشانی میں اپنی پڑھائی خراب نہ کریں۔

مجھے تو سخت رنج ہوا، یہ بات سُن کر، میں قدرے غصے میں سب کو گھور رہا تھا کہ میں اِتنا تو بڑا ہوگیا ہوں کہ مجھ سے یہ بات کم از کم نہیں چھپائی جانی چاہیےتھی کہ آخر بڑی باجی کے بعد میں ہی اس گھر کا بڑا فرد ہوں جس نے آگے چل کر خاندان کی کمان سنبھالنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ باہم خیریت و عافیت کے تبادلہ کے بعد مہمانوں نے ابا جان کی طبیعت کے بارے میں باری باری پوچھا، دُعائیں دیں، دیسی آزمودہ ٹوٹکوں سے علاج کے مشورے بھی دئیے۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے، ابا جان نے سبھی سے کہا کہ اب میں سونا چاہتا ہوں، آپ بھی سفر کی وجہ سے تھکے ہوں گے، آرام کریں، صبح باتیں ہوں گی۔

بڑی پھوپھو نے کہا کہ ہمیں تھکاوٹ نہیں ہے، آپ کو صحت مند دیکھ لیا ہے، ساری تکان اُتر گئئی ہے، آپ کچھ دیر اور ہمارے درمیان بیٹھے رہیں، دل کو تسلی ہو جائے گی۔ سب نے پھوپھو کی رائے سے اتفاق کیا، چچا نے کہا کہ بھائی صاحب، آپ کی طبیعت کا سُن کر بہت دُکھ ہوا، ہم سب نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں، زندگی موت کا اللہ کو پتہ ہے، کب کس کی آجائے۔

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

ہم سب نے آپ کی طرف آنے سے پہلے باہم اکھٹا ہو کر یہ مشورہ کیا ہے کہ والدین کی طرف سے جو مشترکہ جائیداد ہے، اُسے راضی خوشی آپس میں قانون کے مطابق تقسیم کر لیا جائے۔ ابا جان نے اماں کی طرف حیرت سے دیکھا اور پھر اماں نے ابا کی طرف تعجب سے دیکھا۔ ایک دم خاموشی چھا گئی، ہم بہن بھائی بھی ہکا بکا رہ گئے کہ مزاج پُرسی کے بہانے آنے والے یہ احباب تو در اصل کسی اور منصوبہ کے تحت لشکر کی صورت آئے ہیں۔

اماں نے کہا، یہ بھی کوئی وقت ہے حساب کتاب کرنے کا اور اس وقت احمد علی(یعنی میرے ابا)کو سخت آرام کی ضرورت ہے، آپ لوگ انھیں اس تکلیف میں نہ ڈالیے، کسی اور دن تک یہ معاملہ اُٹھا رکھیں۔ سبھی نے یک زبان ہو کر کہا کہ زندگی موت کا کیا پتہ ہے، مطلب یہ کہ ہم تھوڑا کہتے ہیں کہ بھائی کو خدا نخواستہ کچھ ہو جائے، اللہ انھیں لمبی زندگی دے، مگر یہ جائیداد والا معاملہ آج نپٹ جائے تو اچھا ہے، بار بار سب کو اکھٹا ہونے میں دِقت ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

ابا جان نے سبھی کو مخاطب کرکے کہا کہ اب جبکہ آپ لوگ فیصلہ کرکے یہاں آہی گئے ہیں اور تقسیم کے بغیر جانے والے نہیں ہیں تو ٹھیک ہے میں تیار ہوں، آپ بتائیے کہ جائیداد کی تقسیم کس طرح کرنی ہے۔ چچا نے کہا کہ بھائی جان! آپ جس طرح تقسیم کر دیں ہمیں منظور ہوگی، ہمیں بس آپ کے ہوتے ہوئے یہ معاملہ کرنا ہے تاکہ کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے۔ ابا جان نے کہا کہ ٹھیک ہے، یہ گھر میرے نام ابا مرحوم کر گئے تھے، اس کا انتقال اور رجسٹری میرے پاس ہے، اس کے علاوہ گاؤں میں پندرہ ایکڑ زمین ہے، دو حویلیاں ہیں، شہر میں تین پلاٹ ہیں اور بینک میں چند لاکھ روپے ہیں، آپ لوگوں نے باہم بیٹھ کر سارا حساب کر لیا ہوگا، آپ ہی بتائیے کس کو کیا لینا ہے اور کیا چھوڑنا ہے۔

اس کے بعد چچا، پھوپھو لوگوں میں دنگل شروع ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے گھمسان کے رن کا نظارہ پیش کرنا شروع کر دینا، آپ سے تو اور تو سے تم تک بات پہنچ کر گالم گلوچ کی ایسی برکھا برسی کہ چھینٹ پڑے بغیر سبھی شرابور ہو گئے، بات وہیں کی وہیں رہی کہ میں تو ایک پیسہ نہیں چھوڑنے والا، میں نے یہ ایثار کیا، میں نے وہ قربانی دی، میں نے یہ مشکل کاٹی، میں نے وہ امتحان دیا، میرے بچے بھوکے مر گئے، میری بیٹی کا رشتہ نہیں ہو رہا، میری بیوی نے مجھے تنگ کر رکھا ہے، میرا سالہ میرا زیور کھاگیا، میرے دیور نے مجھے ٹھگ لیا، میرے بچے مجھے گھر سے نکالنے پر تُلے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

ہم سب بہن بھائی گھر میں دنگل بپا کیے چالیس افراد کی جملہ حرکات کو ششدر دیکھ رہے تھے، اماں گھر کے دروازے مقفل کرتی، کبھی کھول دیتی کہ آواز باہر نہ جائے مگر آواز تو پورے محلے میں جا رہی تھی، ہمسایوں نے دستک دے دے کر علحدہ تنگ کر رکھا تھا کہ خیریت تو ہے کوئی لڑائی جھگڑا ہے کیا، ہماری مدد درکار ہے تو بتائیے۔ ابا جان نے تنگ آکر سب کو بلند آواز میں للکار کر کہا کہ بس! خاموش ہو جاؤ، تم لوگ بہت بول چکے۔

میں ابھی تم لوگوں کا حساب کر دیتا ہوں، مجھ سے اور میر ےخاندان سے جتنی آپ کو محبت اور قُربت ہے وہ میں نے اور میرے خاندان نے آج دیکھ لی، آپ کو میرے مرنے سے پہلے وراثت میں حصہ چاہیے، اس لیے آپ باہم مشورہ کرکے مجھے مارنے کے لیے آئے ہیں، اچھی بات ہے، میں آج آپ لوگوں کا حساب کر دیتا ہوں، آپ نے کہا کہ میں نے ساری عمر والدین کی وراثت کو کھایا ہے اور اپنی اُولاد پر مشترکہ دولت لُٹائی ہے اور کسی کوآنہ تک نہیں دیا اور سب کچھ خود ہی ہڑپ کرنے کے چکر میں ہوں۔

میں آج بتاتا ہوں کہ میں نے اپنی اُولاد کے منہ سے نوالا چھین کر ہمیشہ آپ کو کِھلایا ہے، اپنی اُولاد کو لیرے لیرے کپڑوں میں رکھ کر آپ کو برانڈ پہنائے ہیں۔ ابا جان نے مجھے کہا کہ بیٹا، ذرا میری ڈائری لے کر آؤ، میں امی کی طرف دیکھنے لگا، اماں نے ہاں میں جواب دیا، میں ڈائری لے آیا، ابا جان نے کہا: سبھی غور سے سنتے جائیں کہ کس کو کیا دیا ہے، اس کے بعد ابا پڑھتے گئے اور وہ لوگ خاموشی سے سنتے گئے، آدھ گھنٹہ بعد جب ابا جان نے نظر اُٹھا کر سب کی طرف دیکھا تو سبھی کی نگاہیں جُھکی ہوئی تھیں، کسی کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔

ابا جان نے کہا: اب آپ بتائیے کس کو کیا چاہیے۔ سبھی خاموش تھے، کوئی چُوں بھی نہیں کر رہا تھا۔ ابا نے کہا: والدین نے مجھے بڑا بھائی سمجھ کر آپ لوگوں کا نگہبان مقرر کیا تھا اور مجھے نصیحت کی تھی کہ ہمارے مرنے کے بعد اپنی ضرورتوں کو دبالینا اور خواہشوں کو قربان کر دینا مگر اپنے بہن بھائیوں کی ضرورتوں اور خواہشوں کو خواہی نہ خواہی پورا کرتے رہنا کہ ہمارے مشرقی سماج میں والدین کے بعد بڑا بھائی اس ایثار کے لیے آگے بڑھتا ہے، اللہ تمہیں بہت دے گا، دل چھوٹا مت کرنا اور کبھی حساب و کتاب میں نہ پڑھنا کہ حساب کرنے والے کتابوں میں دفن ہو جاتے ہیں، دلوں میں کبھی زندہ نہیں رہتے۔

خدا کو خوش کرنا ہے تو بہن بھائیوں کو ان کی خواہش سے ہمیشہ زیادہ دینا کہ کل کو یہ، یہ نہ کہیں کہ ہمارے والدین نے ہمارے لیے بڑے بھائی کی شکل میں ناسور پیدا کیا تھا جس نے ہمارے پیٹ کاٹے، ہمارے پاؤں توڑے اور ہماری زندگی اجیرن کی۔ بیٹا! دُنیا آزمائش گاہ ہے، یہاں کسی کو خوش نہیں کیا جاسکتا، لوگ تو اپنے پیدا کرنے والے رب پر بھی خوش نہیں ہوتےیہ تو پھر انسان ہیں اورانسان، انسان سے کیسے خوش ہو سکتا ہے۔

ان جملوں کی ادائیگی کے بعد ابا جان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، ابا جان نے ڈائری کو ہاتھ میں لے کر کہا کہ یہ بیس سال کا حساب میں اس لیے لکھتا رہا کہ آج کے دن تم لوگوں نے مجھے یہی کہنا تھا جو تم لوگوں نے مجھے کہا ہے۔ یہ اس لیے نہیں لکھا تھا کہ تم لوگوں کو نیچا دکھا کر خود کو بڑا منصف اور اُصول پرست ثابت کرنا تھا۔ ابا جان نے ڈائری کو درمیان سے پھاڑ ڈالا، پھر غصے میں اس کے ورق ورق کو ادھیڑ ڈالا، اس کے بعد رونے لگے، ابا کو روتا دیکھ کر ہم بہن بھائی بھی رونے لگے، پورا گھر رو رہا تھا، کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس وقت اشک بار نہ تھی۔

آج مجھے ابا کی سبھی باتیں سمجھ میں آئیں کہ ظالم سماج میں کامیاب زندگی گزارنا اور دامن پر آلودگی کی چھینٹ تک نہ پڑنے دینا دُنیا کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ یہ واقعی آگ کا دریا ہے جس میں ڈوب کے جانا پڑتا ہے۔ ابا جان کی طرح ایسے ہزاروں بڑے بھائی اپنےبہن بھائیوں کے لیے زندگی بھر ایثار کرتے ہیں اور جواب میں انھیں الزام و دُشنام و طعن کے سِوا کچھ نہیں ملتا۔ مزے کی بات یہ کہ رُسوائی وملامت کے باوجود یہ افراد مشرقی سماج کی اس کہنہ روایت کے پیرو رہتے ہیں اور خواہی نہ خواہی اس چلن کو نبھاہنے کی کوشش کرتے ہیں، بھلے ان کی اپنی زندگی عبرت کا نشان بن جائے، انھیں فرق نہیں پڑتا۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi