Thursday, 05 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Fahash Tarkari

Fahash Tarkari

فحش ترکاری

جوش ملیح آبادی آفریدی خاندان کے چشم و چراغ تھے، ان کا خاندان درہ آدم خیل سے ہجرت کرکے اتر پردیش کے ایک قصبے ملیح آباد میں سکونت پذیر ہوگیا تھا، ملیح آباد اتر پردیش میں منی درہ آدم خیل تھا، جوش نے اپنی خود نوشت میں ملیح آباد کی ایک شادی کا احوال بیان کرتے ہو لکھا تھا۔

"ملیح آباد میں ایک خان صاحب کے لڑکے کی شادی پر ناچ ہو رہا تھا، بالا خانے سے ایک خاتون جھانک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی تو محفل میں سے ایک صاحب نے اس پر بندوق چلادی، دیگوں کے حلقے میں کھڑے صاحب خانہ بندوق کی آواز سن کر بھاگے بھاگے محفل میں آئے تو بندوق چلانے والے نے کہا۔

آپ کی بیوی اوپر سے جھانک رہی تھی اور مجھ سے یہ بے حیائی برداشت نہیں ہوئی اور بندق چلا دی۔

صاحب خانہ نے اس کی پیٹھ ٹھونک کر بہت اچھا کیا اور اندر چلے گے اور ایک لاش گھسیٹتے ہوئے باہر لائے اور کہا۔

بھائیو دیکھ لیجئے میری بیوی نہیں لونڈی جھانک رہی تھی، اللہ نے میری جان اور آبرو دونوں بچا لیں (صفحہ 150 پرانا ایڈیشن).

یہ سفاک غیرت صرف ملیح آباد تک محدود نہیں تھی، خواتین کا باپردہ ہونا مسلم شرفاء کے ہاں بعض اوقات بڑی بھیانک اور بعض اوقات مزاخیہ شکل بھی اختیار کر جاتی، عورتوں کی آواز تک کا پردہ ہوتا کہ ان کی آوز زنان خانے سے مردانے تک نہ پہنچے، یہاں تک کہ خواتین کے جسمانی وزن کے پردے کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا۔

شرفاء کی عورتیں ڈولی یا پالکی میں سفر کرتیں، جسے مرد اٹھاتے، اس لیے پالکی میں کوئی سل یا پتھر رکھ دیا جاتا تاکہ خاتون کا اصلی وزن کسی کو معلوم نہ پڑے۔

یہاں تک کہ جن خواتین کا کریکٹر ڈھیلا ہوتا شریف خاندانوں کی عورتیں ان سے بھی پردہ کرتیں۔

اس پردے سے سبزیاں بھی محفوظ نہ ہوتیں، وہ سبزیاں جو لمبی لمبی ہوں مثلاً کریلے، کھیرے، ٹھینڈے لوکی وغیرہ کو بھی سالم حالت میں گھر نہ لایا جاتا بلکہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے لایا جاتا، کیونکہ صورت کے لحاظ سے یہ سبزی بقلم جوش ملیح آبادی "فحش ترکاری"کہلاتی۔

مگر امر حیرت یہ ہے کہ پردے کی اس بھیانک روایت کے امین مسلم شرفاء کے وہ مرد جو لمبی سبزی کو فحش قرار دے اس سے بھی عورتوں کو پردہ کرواتے تھے انہی شریف زادوں نے لکھنؤ اور لاہور میں طوائفوں کے کوٹھے بھی بساتے اور اپنی دولت ان کی مٹکتی کمریا اور تھرتھراتے کولہوں پر وار دیتے۔

Check Also

Fake News Aur Fact Check

By Syed Badar Saeed