1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Dhaka, Main Aaun Ga

Dhaka, Main Aaun Ga

ڈھاکہ! میں آؤں گا

جب گگن شاہد نے خبر دی کہ سہیل پرواز سر کا ناول آنے والا ہے اور وہ سقوطِ ڈھاکہ کے پسِ منظر میں لکھا گیا ہے تو میری بے چینی عروج پہ پہنچ گئی۔ ڈھاکہ میرے لئے پرستان کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ ماں اور بابا اسی زمانے میں ڈھاکہ کے رہائشی تھے اور بابا ڈھاکہ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اور نمایاں نام رکھتے تھے اور اسیری سے رہائی کے بعد لوٹے تھے۔ اس پرستان کے ایسے ایسے قصے ہم نے سن رکھے ہیں کہ ہم تمام اولادوں کے دل میں ایک ایک ڈھاکہ بستا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی نقشے پر پاکستان کی پیدائش 1947ء کے حوالے سے کئی خون رنگ کہانیاں ہمارے ادب کی زینت ہیں لیکن ان کہانیوں کے آخر میں قربانیوں میں شہزادے شہزادیوں کے ملن کی طرح ایک آزاد وطن کا انعام مل جانا تقویت کا باعث ہے۔ یہ دوسری بڑی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کو کاٹ کر پاکستان کو اپاہج کر دینا بہت بڑا المیہ اور سازش تھی وہ زخم کبھی بھرا نہیں جا سکا بلکہ خون رستا ہی رہتا ہے اور سانحے کے انجام پہ نظر ڈالیں تو زخم چِھل کر دہکنے لگتے ہیں ایک ایسا گھاؤ جو کبھی بھرا نہیں جا سکی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے حسّاس ادیب نے اس تکلیف دہ موضوع کو زیادہ اہمیت کیوں نہیں دی یعنی اس موضوع پہ اتنا نہیں لکھا گیا جیسا لکھنے کا حق تھا۔

خیر ناول کا موضوع علم ہوتے ہی مَیں نے گگن بھائی سے کتاب کی ایڈوانس بکنگ کروا لی اور ٹھیک بیس پچیس روز بعد ناول پبلش ہو گیا۔ اگلے ہی روز مجھے مل بھی گیا۔میری ڈھاکہ کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی تھی۔ دل کے ایک کونے میں چھوٹا سا ڈھاکہ سو رہا تھا یہ ناول پڑھتے پڑھتے میرے اندر دھماکے ہونے لگے جیسے چاغی کے پہاڑوں کا رنگ 28مئی1998ء کو بدلا تھا اور سویا ہوا ڈھاکہ انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا۔ ناول کی بنیاد مشرقی و مغربی پاکستان کے دو خوشحال خاندانوں کے ساتھ رکھی گئی۔ ناول کا ہیرو مشفق الاسلام مشرقی پاکستان سے پاک فوج کے لئے منتخب ہو کر تربیت کے لئے ڈرتا جھجھکتا مغربی پاکستان میں آتا ہے جہاں مغربی پاکستانیوں کی بے پناہ محبت اس کے دل میں گھر کر لیتی ہے۔

وہ ان محبتوں کا اسیر ہو جاتا ہے اور ایک اتفاق کے تحت اسے یہاں اپنے روم میٹ کیڈٹ کے گھر اور فیملی سے ہمدردی ہو جاتی ہے جو بعد میں رشتہ داری میں بدل جاتی ہے اور وہ اس گھر کا بیک وقت بیٹا اور داماد بن جاتا ہے۔شروع میں تو لگا کہ دو الگ بھاشا بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی محبت و معاشرت کی ایک ہلکی پھلکی داستان ہے۔ ہلکی سی اکتاہٹ ہوئی لیکن مجھے ناول ہر حال میں پورا پڑھنا تھا۔ جلد ہی مجھ پہ آشکار ہوا وہ اکتاہٹ نہیں بلکہ اسیری سے پہلے والی احتیاط اور بے چینی تھی جوں جوں کہانی آگے بڑھتی گئی مجھے اسیری کے سنہرے پنجرے میں جکڑنے لگی۔ داستان میں محبت کے ساتھ سرفروشی اور جذبۂ حب الوطنی غالب آنے لگی۔ کہیں کہیں میٹھی بنگلہ بھاشا کے جملے سماعتوں میں رس گھولنے لگے وہی جملے جو ماں اور بابا آپس میں بولتے تھے۔

سیاسی و معاشی کئی طرح کی غلط فہمیاں کُھل کر سامنے آنے لگیں جو آخر تک دھل گئیں۔ (یہ مصنف کا کمال ہے)شیخ مجیب الرحمان اور ان کی عوامی لیگ کی وجوھات اور انڈین آقاؤں کے ہاتھوں کھیلنے بلکہ بکنے کی روداد سے صحیح معنوں مین واقفیت ہوئی۔ تاریخ کی طالب علم ہونے کے باوجود مکتی باہنی فورس کی داغ بیل کیوں اور کیسے پڑی یہ گتھی کبھی نہیں سلجھتی تھی یہاں مصنف نے اتنی نرمی سے یہ گرہ کھولی کہ سب کچھ واضح ہو گیا۔

اصل کہانی تو ڈھاکہ فال کے بعد شفو بھیا کے ہتھیار نہ ڈالنے سے شروع ہوئی۔ ان کے فرار اور جنگلوں میں رفت و قیام کے آلام اور مفلسی کے واقعات اتنے دِل گداز تھے کہ بعض دفعہ تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ کئی دفعہ دل بھر آیا۔ یکے بعد دیگرے ان کے دو عزیز از جان ساتھیوں کی شہادت اور کسمپرسی پہ دل لہو ہو گیا۔ مجھے خود پہ حیرت ہے میں نے ناول کے کئی پیراگراف باآوازِ بلند پڑھ کر خود کو سنائے۔ بھرے گلے کو دل میں اور بجتے دل کو اپنے کانوں میں سنا۔ شاید میں ناول کو آنکھوں اور دل دونوں طرح سے منظر کرنا چاہتی تھی۔

برما کی جیل میں پندرہ برس کی قید کے بعد بھی ایک محب الوطن مجاہد کے ہتھیار نہ ڈالنے کی کہانی نے دل میں کئی زخم ڈالے لیکن اپنی فوج کے ایک ایک سپاہی پہ اعتماد اور بھی بڑھ گیا۔ ناول سپاہی کے فرض اور محبت کی ایک خوبصورت داستان بھی ہے جس نے وطن کی آن پہ اپنے بشری تقاضے قربان کر دئیے لیکن شکست تسلیم نہیں کی طویل قید و بند کی صعوبتوں کے بعد اچانک رہائی اور اپنے گھر والوں سے ملنے کی داستان بھی دل کو کئی بار رقیق کر گئی۔

مجھے یقین ہے کہ یہ ناول ادب کے اُفق پہ ایک تابندہ ستارے کی مانند جگمگانے جا رہا ہے۔ ناول کو بے پناہ پذیرائی ملے گی اور یہ بھی یقین ہے کہ اسے جلد یا بدیر فلمایا بھی جائے گا۔ اس کہانی کو زیادہ پراثر کرنے کے لئے اور نسلِ نو کی آگاہی کے لئے اسے فلمایا جانا بے حد ضروری ہے۔ میری نیک تمنائیں ہیں کہ ناول چودھویں کے چاند کی مانند ادب کے بام پہ جگمگائے۔ میں تو اس ناول کی اسیر ہو گئی ہوں جلد رہائی ممکن نہیں۔

Check Also

Adliya Aur Parliament Mein Barhti Talkhiyan

By Nusrat Javed