1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Aik Kahani Bahut Purani

Aik Kahani Bahut Purani

ایک کہانی بہت پرانی

آج دو دوستوں کے درمیان ؔعقائد کے اختلافات کو لے کر وہ جنگ ہوئی، وہ گولہ باری ہوئی دونوں جانب سے کہ خدا کی پناہ۔ کوئی بھی اپنے فرقے پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دینا چاہتا تھا آخر دو دن کی لمبی بحث کے بعد دونوں پرانے دوستوں نے ایک دوسرے کو بلاک کر کے اپنا اپنا ایمان بچا لیا۔ سارا دن ایک افسردہ سی کیفیت طاری رہی کہ بچپن کا یارانہ تھا اور بالغ النظری کی بھینٹ چڑھ گیا۔

اس موقعہ پر وہ دو گجریاں بڑی شد ومد کے ساتھ یاد آگئیں جنہیں ہم بچپن میں سکھ ماسیاں کہا کرتے تھے۔ ماسی نوراں اور منظوراں دونوں بہنیں تھیں اس زمانے میں تو بڑی بوڑھیاں دِکھتی تھیں نظر کو مگر اب یاد پڑتا ہے کہ پینتالیس پچاس کے درمیان تھیں ہمیں سو سو سال کی فرسودہ، پرانی اور متروک بوڑھیاں لگا کرتیں۔ ہم لوگ قریبی قصبے سے شہر نقل مکانی کر آئے تھے۔ ابھی پوری طرح سے ہوش نہیں سنبھالا تھا۔ والد صاحب اسکول کے معیار سے مطمئن نہیں تھے کچھ دیگر گھریلو مسائل بھی لاحق تھے سو کڑوا گھونٹ بھر لیا گیا۔ یار لوگوں کے آبائی مکانات قصبوں اور دیہاتوں میں واقع ہوتے ہیں مگر ہمارا شہر کے بیچوں بیچ مین روڈ پر تھا۔

کچھ یاد نہیں پڑتا کہ وہ کب اور کیسے ہمارے ہاں آنا شروع ہوئیں البتہ یہ یاد ہے کہ ان کا تعلق بھی اسی قصبے سے تھا جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ہمارا شہر والا گھر چونکہ مین روڈ پر تھا سو قصبے والی گاڑیوں کی آمد ورفت سارا دن جاری رہتی۔ وہ دونوں بہنیں بھی ہمارے گھر کے آگے اترتیں۔ بڑی بڑی پیتل کی چمکتی گاگریں ان کے ساتھ ہوتیں۔ وہ اپنا فالتو سامان یہاں رکھ کر ایک گاگر سر پر اور ایک بغل میں دبا کر دودھ کی تقسیم کاری پر نکل جاتیں۔ دوپہر میں ان کی واپسی ہوتی تو اکثر کھانا تیار ہوتا۔ وہ زمانے کچھ اور تھے اگر گھروں میں کھانا لگ جاتا تو آنے والوں کو بھی شریک کر لیا جاتا اکثر نہیں بھی کھاتی تھیں کہ اب گھر جاکر ہی کھائیں گی مگر کبھی شریک بھی ہو جاتیں۔ بس ایسے ہی چلتے پھرتے کانوں میں بات پڑی تھی کہ کبھی سکھنیاں تھیں اب مسلمان ہو چکی ہیں۔ لیکن انہیں اب بھی سب سکھنی ماسی ہی کہتے تھے۔

مجھے انسانی فطرت اور اسکی جانکاری میں ہمیشہ سے ہی دلچسپی رہی ہے۔ بڑی بہنیں والدہ کے ساتھ گھر داری سنبھال رہی ہوتیں اور وہ دونوں ہاتھ منہ دھو کر میرے ساتھ بیٹھ جاتیں۔ جیب میں سے قرآنی پارے کا خستہ حال سا نسخہ نکال کر مجھے آموختہ سناتیں اور ایک نیا حرف نئے سبق کے طور پر لیتیں۔ کافی دیر تک دہراتیں پر اجنبی زبان کے لفظ ان کے منہ پر نہ چڑھ کر دیتے کہ عمر کافی ہو چکی تھی اور الفاظ پہلے سے ان کے حافظے میں نہیں تھے۔ انکے لئے عربی مشکل زبان تھی چند منٹ بعد لفظ کچھ کا کچھ ہوجاتا۔ بہت وقت لگتا بار بار آواز دے کر ازسرِ نو درست ادائیگی کے لیے رجوع کرتیں۔ میں بہت نخرے دکھاتی جھنجھلاتی بچی ہی تو تھی۔ میں نہیں آرہی ماسی تم بار بار کیوں بلاتی ہو اب جاؤ ناں اپنے گھر وہاں یاد کر لینا یا اتنی بڑی ہوگئی ہو سبق کیوں یاد نہیں کر سکتی۔ وہ بے بسی سے دیکھتیں اور سر جھکا کر میرے موڈ کا انتظار کرتیں کہ کب نرم ہو۔ سورج غروب ہونے کے قریب پر واپسی کی راہ لیتیں۔

ہمارا فارم ہاؤس چونکہ ابھی تک قصبے میں موجود تھا تو آنا جانا لگا رہتا تھا۔ والد صاحب موسم کی سبزیاں اور پھل لگوا لیتے۔ سالانہ اجناس بھی کاشت ہوتیں سو ان کے چکر بھی لگتے رہتے۔ روز کا رابطہ رہنے سے مجھے ان کی ذات میں گہری دلچسپی پیدا ہوتی گئی یا شاید اُنسیت۔ ایک دن والد صاحب فارم ہاؤس جانے والے تھے مجھے وہاں گھومنے میں بڑا مزہ آتا تھا میرے اصرار پر مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ بڑا اچھا لگتا تھا جب چوکیدار کی بیوی ہمارے لیے اینٹوں کا چولہا بناتی۔ لکڑیوں پر جلتے بجھتے لپکتے شعلے اور تیز نارنجی آ گ کا رقص ہانڈی کے نیچے کئی طرح کی شکلیں اختیار کرتا جاتا اوپر دھری ہانڈی بھی کئی شکلیں بدلتی تیار شدہ حالت میں خوشبوئیں دینے لگتی۔ جو بھی پکتا بہت مزے کا لگتا ایک پکنک کا سا مزا آتا۔ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل کی آ واز بہت بھلی لگتی۔ ارد گرد کے مزارعے سلام کو آجاتے۔ اس دن گیٹ کھلا دیکھ کر ماسی نوراں بھی اندر آگئی اور میرے کہنے پر اپنا گھر دکھانے مجھے ساتھ لے گئی۔

دماغ میں کوئی واضح خیال تو نہیں تھا البتہ نوعمری والا بے پناہ تجسس ضرور تھا۔ لکڑی کا بھاری سا منقش دروازہ دو قدمچے اتر کر کنڈی کھٹکھٹانے پر ماسی منظوراں نے کھولا۔ باہر تو اچھی خاصی روشنی تھی مگر اندر اندھیرے کا راج تھا۔ میں نے کہا کہ ماسی لائٹ جلاؤ ناں اتنا اندھیرا کر رکھا ہے تو وہ ایک لالٹین لے آئی۔ اس نے بتایا کہ میٹر تو جانے کب کا کٹ چکا ہمیں اب عادت ہو چکی ہے کون جائے دفتروں کے چکر کاٹنے اور پھر بل کا مفت کا خرچہ۔ گھر سے ملحقہ باڑے میں دو گائیں بندھی تھیں ان کی روزی روٹی کا آسرا۔

باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ ماں باپ ہجرت کے وقت مر گئے ہم دو بہنیں اور ایک بھائی اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ بھائی کو تو کسی بیماری نے لپیٹ لیا، ہم دونوں اکیلی رہ گئیں۔ ہماری شادی کون کرواتا؟ چند سکھ گھرانے تب سے اب تک محلے میں رہتے چلے آرہے ہیں۔ مسلمانوں کے اچھے سلوک سے متاثر ہو کر ہم نے اسلام قبول کر لیا پر مشکلات نے دروازہ پکڑ لیا۔ گاہے بگاہے سکھ مامے چاچے دھمکیوں کی صورت رشتہ داری ثابت کر جاتے ہیں۔ ہم شہر میں ہوں تو اندر گھس کے تلاشی بھی لیتے ہیں کہ کونسا خزانہ جمع کر رہی ہیں۔ ایک دوسرے پر حق بھی جتاتے ہیں تاکہ کسی طرح ہمارے مکان پر قبضہ جما سکیں۔ مسلمان ہونے کی وجہ سے خار کھائے رہتے تھے۔ بس کسی نہ کسی بہانے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ مچا کر چلے جاتے ہیں۔

مسلمان ہونے پر مولوی صاحب نے قرآن کے دو نسخے تحفۃً عطا کئے تھے وہ بھی انہیں رشتہ داروں نے شہید کر دیئے تھے۔ بلوے کے ڈر سے نوراں اور منظوراں نے یہ بات محلے میں تو کسی کو نہیں بتائی لیکن مجھے بے ضرر سمجھتے ہوئے یا پھر گفتگو کے تسلسل اور جذبات کی روانی میں ان کے منہ سے نکل گئی۔ آنکھوں میں موٹے موٹے چمکتے آنسو آج بھی پوری آب و تاب سے میرے سامنے آگئے ہیں۔ اسی لئے ہم اپنے پارے اپنی جیب میں ہی سنبھال کے رکھتی ہیں تاکہ ہمارا ایمان سلامت رہے۔

وہ بیچاریاں ایک مسلمان ملک میں مسلمان محلے میں جہاں ان کے چند سکھ رشتہ دار بستے تھے بڑی ایمانداری سے اپنا ایمان چھپائے پھر رہی تھیں۔ وہ ان پڑھ عورتیں آج اچانک یاد آئیں تو بے ساختہ ان کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاہا۔ وہ اپنی بستی سے دور شہر میں اسی لالچ میں دودھ فروخت کرنے آتی تھیں کہ قرآن کا سبق بھی لے لیں گی اور بستی میں کسی کو خبر بھی نہیں ہوگی۔ دونوں بہنوں کی آرزو تھی کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ قرآن مجید پورا ختم کر لیں۔ نماز ان کو نہیں آتی تھی جمعہ کے دن والدہ کے ساتھ کھڑی ہوکر پڑھ لیا کرتیں اور بہت خوش ہوتیں۔ اب یاد پڑتا ہے کہ جمعہ کو بڑے اہتمام سے نہائی دھوئی آیا کرتی تھیں۔ دنداسے، سرمے کا استعمال بھی خوب کیا ہوتا کہ آج تو مولا پاک کے دربار میں حاضری کا دن ہے۔ اب بڑی عظیم لگتی ہیں۔ سپاروں کو پلاسٹک شیٹ میں لپیٹ کر صدری کی بڑی جیب میں رکھتیں۔ گھر چھوڑ کر نہیں آتی تھیں۔ ان کا یہ جملہ کافی بڑی ہونے پر سمجھ میں آیا کہ یہی تو ایمان کا سارا اثاثہ ہے جو ہم جیب میں ساتھ لئے پھرتی ہیں کوئی رشتہ دار پھر نہ شہید کر دے۔ کیا ان کا جذبہ ایمانی تھا کہ ہمارے پاس تو معمولی سا ایمان ہے اسی کو بچا کر اور اسی کے ذریعے سے آخرت میں بیڑا پار ہوگا ناں۔ بچہ تم لوگ تو پرانے مسلمان ہو بڑے مضبوط اعتقاد والے۔ اصلی اور نسلی ہو سیدھا جنت میں جاؤ گے۔

کٹر نسلی اور اصلی مسلمانوں کا تو پتہ نہیں البتّہ دل گواہی دیتا ہے کہ ان کا وہ معمولی سا ایمان روزِ قیامت ان کی نجات کا ذریعہ ضرور بن جائے گا۔

Check Also

Riyasat Kab Kuch Kare Gi?

By Saira Kanwal