Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umar Khan Jozvi
  4. Wo Bhi To Insan Thay

Wo Bhi To Insan Thay

وہ بھی توانسان تھے

گاڑیاں کیا بڑے بڑے جہاز بھی ہم نے دیکھ لئے۔ وہ جہاں تک پہنچنے کے لئے ہمارے آباؤ اجداد اور بزرگ سالوں اور مہینوں کی پیدل مسافتیں طے کیا کرتے تھے ان جگہوں تک بھی ہم ہفتوں اور مہینوں نہیں بلکہ گھنٹوں اور منٹوں میں پہنچے۔ وہ جن کھیتوں اور زمینوں میں بیچ بونے کے لئے ہمارے بزرگ ہفتوں تک ہل چلایا کرتے تھے ان کھیتوں اور زمینوں میں بغیر ہل چلائے بیچ بھی ہم نے گھنٹوں اور سیکنڈوں میں بوئے۔

وہ جن گھروں اور مکانوں کی سفیدی و لالی کے لئے ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں میلوں دور سے مٹی لا کر کئی دنوں تک لپائی کی مشقتیں اٹھایا کرتی تھیں ان گھروں اور مکانوں کو بھی ہم نے گھنٹوں میں سفید و لال کیا؟ نیلا، پیلا اور زرد ہوتے دیکھا۔ وہ جس پانی کے لئے ہمارے بچے برتن اٹھائے میلوں دور جایا کرتے تھے اس پانی کو ہم نے ہر گھر میں چھوٹے چھوٹے بے جان نلکوں سے نکلتے بھی دیکھا۔

وہ ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو پر ہم برسوں تک جن کی صرف آواز سنتے تھے ان آواز والوں کو بھی ہم نے ان گنہگار آنکھوں سے آمنے اور سامنے دیکھا۔ وہ جو سالوں پہلے گاؤں کی گلیوں اور کھیت کھلیانوں میں گُلی ڈنڈا، کرکٹ، بنٹے اور آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے ہم نے بڑوں سے سنا تھا کہ دنیا میں ایسی کوئی چیز آئی ہے کہ جس میں یہاں سے بات کرنے والے کو امریکہ، سعودی عرب، فرانس اور جاپان میں بات کرنے والا بھی نظر آتا ہے، وہ چیز بھی نہ صرف ہم نے ان آنکھوں سے دیکھ لی بلکہ آج وہ موبائل کی شکل میں ہر جیب اور ہر گھر کے اندر موجود بھی ہے۔

جدید سائنس ٹیکنالوجی اور ترقی کے ذریعے خدا کی ہر نعمت اور دنیا کی تقریباً ہر سہولت ہم نے نہ صرف اپنی ان آنکھوں سے دیکھی بلکہ اکثر و بیشتر نعمتیں و سہولتیں اپنے ان ہاتھوں سے استعمال بھی کیں۔ غالباً آج اس دنیا میں ایسی کوئی شئے نہیں جو ہمارے جیسے انسانوں کی پہنچ سے دور یا باہر ہو۔ اور کیا؟ آج ہم چاند تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے شہروں، ہمارے گھروں اور ہماری زندگیوں میں وہ مزہ، وہ راحت، وہ آرام اور وہ سکون نہیں جو سالوں اور مہینوں پیدل مسافتیں طے کرنے والے ہمارے آباؤ اجداد اور بزرگوں کی زندگیوں میں تھا۔

ہمارے بزرگ گاڑیاں اور جہاز نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ میلوں دور پیدل جایا کرتے تھے لیکن ان کے بدن اور جسم نہ تو ہمارے جیسے تھکے ہارے تھے اور نہ ہی ٹوٹے پھوٹے۔ پیدل تو ہم خواب میں بھی نہیں جاتے۔ پڑوس کے گھر کچھ دینے یا لینے کے لئے بھی آج ہم لفٹ، گاڑی اور سائیکل و موٹر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک ہاتھ سے ہم نے ایک ٹانگ اور دوسرے ہاتھ سے دوسری ٹانگ پکڑی اور دبائی ہوتی ہے۔

درد کش انجیکشن لگانے اور پیناڈول کی گولیاں بوسے کی طرح منہ میں انڈیلنے کے بعد بھی اپنے سروں کو ہم نے خطرناک مجرموں کی طرح چادروں اور پٹیوں میں جکڑا ہوتا ہے۔ کیا یہ درد اور سر درد اس زمانے میں نہیں تھے؟ وہ پہلے والے بھی تو ہمارے جیسے ہی انسان تھے، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، چلنا پھرنا اور یہ جینا مرنا تو ان کے ساتھ بھی تھا۔ بیمار تو وہ بھی ہوتے تھے، موت بھی تو ہر وقت ان کے تعاقب میں رہتی اور وہ مرتے بھی تھے لیکن معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ ہماری طرح نہ وہ تڑپ تڑپ کر جیتے اور نہ اس طرح ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرتے۔

یہ شوگر، بلڈ پریشر، کینسر، یرقان، ٹی بی، ہارٹ اٹیک، نمونیا، چھوٹا بخار، بڑا بخار، کالی کھانسی، سفید کھانسی جیسی بیماریوں کے تو اس وقت نام و نشان بھی نہ تھے۔ اس دور میں یہ کرونا شرونا اور روز روز کا یہ رونا دھونا بھی نہ تھا۔ مانا کہ اس دور اور زمانے میں آج کی طرح یہ گاڑیاں، یہ جہاز، یہ کمپیوٹر، یہ سکول، یہ ہسپتال، یہ بازار، یہ کارخانے، یہ فیکٹریاں، یہ قسم قسم کی مشینیں اور یہ موبائل تو نہیں تھے لیکن لوگوں کی زندگیوں میں سکون بھی تھا اور آرام بھی۔

دنوں اور مہینوں پیدل چل کر وہ پھر بھی تروتازہ اور پرسکون رہتے تھے، وہ درد سے کراہتے اور نہ ہی سر اور ٹانگوں کو کبھی پٹیوں سے باندھتے۔ روکھی سوکھی کھا کر وہ آرام و سکون سے اس طرح زندگی گزارتے جس طرح کی زندگی آج وقت کے بادشاہ بھی نہیں گزارتے۔ مکئی کی روٹی، لسی اور ساگ میں اس وقت جو مزہ اور ذائقہ ہوتا تھا آج مٹن، چکن، بریانی، کباب اور پلاؤ میں بھی وہ مزہ اور ذائقہ نہیں۔

وہ مال دولت، جہاز، گاڑی، موبائل، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے بغیر بھی بادشاہ تھے اور ہم؟ سب کچھ آس اور پاس ہونے کے باوجود بھی بھکاری اور دھتکاری ہیں۔ وہ راتوں کو گھروں کے صحن اور دالان میں چارپائی بچھا کر گہری نیند سویا کرتے تھے اور ہم؟ آج ایک ایک گھر کو دس دس تالے لگا اور پانچ پانچ سیکورٹی گارڈ و چوکیدار رکھ کر بھی آرام و سکون سے سو نہیں پاتے۔

سیمنٹ، سریا اور سنگ مرمر سے بنے محلات میں آج وہ سکون نہیں جو پہلے والوں کی کچی لکڑیوں اور پتوں سے بننے والی جھونپڑیوں میں ہوتا تھا۔ آج لاکھوں اور کروڑوں روپے سے بننے والے یہ محل اتنے شاندار نہیں جتنی پہلے والوں کی وہ جھونپڑیاں جاندار تھیں۔ ان کے پاس اس وقت بینک بیلنس تھا اور نہ ہی کوئی تجوریاں۔ ان جھونپڑیوں میں آٹے و چینی کی اس طرح کوئی بوریاں ہوتی تھیں اور نہ ہی مٹن، چکن، چاول، دال اور گھی سے بھری یہ الماریاں۔

لیکن پھر بھی اپنے کیا؟ غیر بھی پاس ہوا کرتے تھے۔ آج تو گھروں میں دنیا کی ہر نعمت اور ہر سہولت موجود ہے۔ آٹا، چینی، دال، چاول اور گھی کیا ہر گھر میں فریج اور فریزر بھی کھانے پینے کی اشیاء سے بھرے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی غیر کیا اپنے بھی پاس نہیں ہوتے۔ وہ لوگ ایک روٹی کیا، ایک ایک نوالہ بھی آپس میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ جس گھر میں کسی دن مرغ یا گوشت کا سالن پکتا تو گھر والے کھانے سے پہلے اسے اڑوس پڑوس کے ساتھ پورے گاؤں میں تقسیم کرتے۔

یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ کوئی مرغ یا گوشت پکاتا اور اس کا سالن اڑوس پڑوس میں نہ بانٹتا۔ آج تو لوگ پوری کی پوری بھینس حلق سے نیچے اپنے جہنم میں اتار دیتے ہیں اور پڑوس کیا ساتھ دوسرے کمرے میں رہنے والے بہن بھائیوں کو بھی پتہ تک نہیں چلتا۔ کتنا شاندار دور اور کیسے خوبصورت لوگ تھے وہ۔ اس رنگ برنگی انسانیت اور مصنوعی روشنیوں سے لالٹین اور دئیے کا وہ دور ایک نہیں ہزار اور لاکھ درجے بہتر تھا۔

اس دور میں یہ جدید سہولتیں تو نہیں تھیں لیکن زندگی جینے کے لئے راحت و سکون والی حقیقی نعمتیں تو تھیں۔ اس وقت جینے کا اپنا ہی کچھ مزہ تھا۔ آج دنیا کی تمام تر نعمتیں اور سہولتیں پاس ہونے کے باوجود لوگ زندگی سے بھاگ رہے ہیں جبکہ اس وقت لوگوں کے پاس سوائے ایک جھونپڑی، پھٹی پرانی چادر اور ایک بھینس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا اس کے باوجود وہ لوگ زندگی کے پیچھے یا زندگی سے نہیں بھاگتے تھے بلکہ زندگی راحت و سکون کا سایہ بن کر ان کے پیچھے بھاگتی تھی۔

وہ لوگ کچھ بھی پاس نہ ہونے کے باوجود امن، سکون اور خوشی سے جی گئے اور ہم سب کچھ پاس پا کر بھی سکون سے جی نہیں پارہے۔ زندگی جینے کا اصل دور اور وقت تو وہی تھا جو ترقی کے دریا میں بہہ گیا۔ اب ہم ہیں اور ترقی۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ترقی کی اس روشنی سے زندگی کا وہ میلا کچیلا، دیا، ہی کہیں بجھ گیا ہو۔

Check Also

Imran Ko Kon Bacha Sakta Hai?

By Najam Wali Khan