Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umar Khan Jozvi
  4. Vote Nahi, Balle, Ko Izzat Do

Vote Nahi, Balle, Ko Izzat Do

ووٹ نہیں، بلے، کوعزت دو

عمران خان کو وزارت عظمٰی کی کرسی سے اسی جمہوری طریقے سے اٹھایا گیا جس جمہوری طریقے سے 2018 میں انہیں اس کرسی پر بٹھایا گیا تھا۔ مطلب وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت ایک جمہوری طریقے سے گرائی گئی لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گرائی گئی پی ٹی آئی کی دونوں صوبائی حکومتوں کا معاملہ اس سے مختلف بلکہ یکسر مختلف ہے۔ کیونکہ پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں کسی نے نہیں گرائیں بلکہ ان دونوں صوبوں میں اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی ماری گئی۔

کپتان اور ان کے کھلاڑیوں کے دل و دماغ میں ملک اور قوم کی خیر خواہی کا اگر تھوڑا سا بھی جذبہ ہوتا تو وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے بجائے ان دو صوبوں کے ذریعے ملک و قوم کے لئے کچھ وہ کرتے کہ جسے دنیا بھی پھر یاد رکھتی لیکن شائد ملک و قوم کی خیر خواہی اور بھلائی کا کوئی باب و سبق پی ٹی آئی کی کتاب میں شامل نہیں۔ بادشاہ کے شوق سلامت رہے ملک اور بہت والی بات ہے۔ یوتھیوں کے نزدیک بادشاہ کے شوق سلامت رہیں تو ملک اور قوم ان کے لئے اور بھی بہت ہیں لیکن بادشاہ وہ ان یوتھیوں کے نزدیک ایک فقط یہی ایک ہی ہے۔

جو شخص یہ جانتے اور سمجھتے ہوں کہ یہ غریب اور مقروض ملک ہے اور اسے اچھی طرح یہ بھی پتہ ہو کہ موجودہ حالات میں یہ ملک لاکھ اور کروڑ کیا؟ ایک پائی کی بھی کوئی فضول خرچی برداشت کرنے کا متحمل نہیں وہ پھر بھی اگر اپنی اناء اور دلی تسکین کے لئے ضمنی انتخابات میں ایک کے بجائے سات سات حلقوں سے اکیلے الیکشن لڑیں تو ایسے شخص سے پھر خیر اور بھلائی کی کیا کوئی امید کی جا سکتی ہے؟ جب پتہ ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق اسمبلی کی ایک ہی نشست پاس رکھنی ہے سات نہیں۔

اگر کوئی سو حلقے بھی اکیلے جیت لے پھر بھی سیٹ انہوں نے ایک ہی رکھنی ہے۔ جیسے اب بادشاہ سلامت کو سات میں سے چھ سیٹیں چھوڑنی ہیں ایسے میں خود سوچیں کہ ایک سیٹ پاس رکھنے والے کے لئے کیا سات سات سیٹوں سے الیکشن لڑنے کا کوئی تک بنتا ہے؟ اب تو سننے میں آ رہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے پہلے سرپرائز میں تحریک انصاف کے جو پینتیس استعفے منظور کئے تھے بادشاہ سلامت کا نیا اور تازہ شوق اب ان پینتیس کے پینتیس حلقوں سے اکیلے الیکشن لڑنا ہے۔

شائد کہ بادشاہ سلامت پینتیس کیا؟ ستر یا سو حلقوں سے اپنا یہ تازہ شوق بھی پورا کر لیں کیونکہ بادشاہ سلامت کے شوق سے زیادہ اور اہم تو کوئی چیز نہیں۔ ملک معاشی طور پر تباہ ہو چکا، مہنگائی میں روز بروز اضافے کے باعث لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، خزانے میں اتنے پیسے اور ملک میں ایسے کوئی وسائل نہیں کہ روٹی کے ایک ایک نوالے کے لئے تڑپنے والے عوام کو بجلی، گیس کے بلز اور اشیائے خورد و نوش پر کچھ ریلیف دیا جا سکے لیکن اس مخلوق کو عوام کے خون پسینے کی کمائی پر شوق پورے کرنے سے فرصت نہیں۔

چھ حلقوں کے ضمنی الیکشن کا بوجھ مفت میں غریب عوام کے کندھوں پر ڈال دیا لیکن پھر بھی دل ٹھنڈا نہیں ہوا۔ اب اس کی خواہش ہے کہ پینتیس حلقوں کا زور بھی عوام کو ہی جائے۔ یہ غالباً اس ملک کے وہ واحد اور عظیم لیڈر ہیں جنہیں اپنے شوق اور ذوق کو سلامت رکھنے کے سوا کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں، عوام کا لفظ تو غالباً اس صاحب کی ڈائری میں شامل ہی نہیں ورنہ یہ عوام سے اس طرح کا بے ہودہ مذاق کبھی نہ کرتے۔ انتخابات ضمنی ہوں یا پھر عوامی یہ کوئی مفت میں نہیں ہوتے۔

انتخابات پر ملک اور قوم کا بیڑہ غرق ہوتا ہے۔ جس کو یقین نہ آئے تو ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، اس ملک کے غریب عوام تو 2018 کے الیکشن کی قیمت بھی ابھی تک چکا رہے ہیں۔ اٹھارہ میں اگر الیکشن نہ ہوتے تو کیا آج ہماری یہ حالت ہوتی؟ اس مقام تک تو ہمیں اٹھارہ کے الیکشن نے ہی پہنچایا ورنہ اس الیکشن سے پہلے تو دن رات ہمارے جیسے غریبوں کے بھی اچھے گزر رہے تھے۔ دوسری بات بادشاہ سلامت نے اسمبلی میں بیٹھنا نہیں پھر انتخابات کے نام پر ملک اور قوم کا اتنا نقصان کرنے کا کیا فائدہ؟

پی ٹی آئی کا پنجاب اور خیبر پختونخوا کے آمدہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اب کوئی اخلاقی اور شرعی جواز نہیں۔ کیونکہ ان دونوں اسمبلیوں سے یہ خود باہر آئے ہیں انہیں کسی نے نکالا نہیں۔ پنجاب اور کے پی کے کے صوبائی انتخابات میں کپتان نے اگر اپنے گھوڑوں کو پھر میدان میں اتارنا ہے تو سوال یہ ہے کہ کپتان نے اپنے شوق کو سلامت رکھنے کے لئے پھر ان دونوں صوبوں میں اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی کیوں ماری؟ کیا کپتان اور کھلاڑیوں کا کام اب صرف الیکشن لڑنا اور پھر دوسرے دن اسمبلی سے دم دبا کر بھاگ نکلنا ہی رہ گیا ہے؟

صوبائی انتخابات میں اگر دوبارہ کپتان کے کھلاڑی جیت گئے اور پنجاب و خیبر پختونخوا میں دوبارہ ان کی حکومتیں بھی بن گئیں تو پھر بھی ملک اور قوم کو اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ کپتان نے اگلے دن پھر ان دونوں حکومتوں کو اپنے ہاتھوں سے گرانا ہے کیونکہ حکومت کرنا اور نظام چلانا یہ کپتان جیسے بچوں کے بس اور وس کی بات نہیں۔ کپتان بچوں کی طرح اسمبلیاں ایک نہیں ہزار بار توڑیں۔ اپنی حکومت ہزار نہیں لاکھ بار گرائیں لیکن کپتان ایک بات یاد رکھیں کہ انتخابات یہ کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں کہ آپ بار بار اس سے کھیلتے رہیں گے۔

مہذب معاشروں میں ہر دوسرے دن انتخابات نہیں ہوتے۔ کپتان خود ترقی و خوشحالی کے حوالے سے جن ممالک کی مثالیں دیتے ہیں ان ممالک میں بھی کہیں سالوں بعد انتخابات یا ریفرنڈم ہوتے ہیں۔ یہ بھی آخر ایک ملک ہے کرکٹ کا کوئی میدان یا کوئی اتوار بازار تو نہیں کہ یہاں ہر دوسرے دن انتخابات کا ڈرامہ رچایا جائے۔ اتنے تو کرکٹ کے میچ بھی نہیں ہوتے جتنے اس ملک میں انتخابات انتخابات کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔

پھر جن انتخابات سے ملک و قوم کو حاصل ہی کچھ نہ ہوتا ہو ایسے انتخابات اور ڈراموں پر لاکھوں و کروڑوں نہیں مفت میں اربوں روپے اڑانے اور لگانے کا کیا فائدہ؟ کیا بادشاہ سلامت کے شوق غربت سے تڑپنے اور بھوک سے بھلکنے والے غریبوں کی آہوں، سسکیوں، بھوک افلاس اور فاقوں سے بھی اہم ہیں؟ نہیں جناب۔ جہاں بھوک و افلاس کے گھیرے اور فاقوں کے ڈیرے ہوں وہاں پھر بادشاہوں کے شوق نہیں پالے جاتے۔

جان کی امان پاؤں تو ایک بات پوچھوں۔ کیا اس ملک میں کپتان کے شوق پالنے اور سلامت رکھنے کے لئے صرف عوام ہی بچے ہیں؟ آمدہ ضمنی انتخابات میں عوام ووٹ کو عزت دیں یا نہ لیکن عوام کو بلے کو عزت ضرور دینی چاہئیے۔ ایسی عزت کہ آگے پی ٹی آئی کے امیدوار ہوں اور پیچھے صرف ایک بلا نہیں بلکہ بلے بلے او سوٹے موٹے بھی ہوں تاکہ کپتان اور کھلاڑی اسے ہمیشہ یاد رکھیں۔ یہ ملک ہے مداری کا کوئی گھر تو نہیں کہ جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی تماشا لگے۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat