Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umar Khan Jozvi
  4. Tsunami Par Fatiha Parh Lein

Tsunami Par Fatiha Parh Lein

سونامی پر فاتحہ پڑھ لیں

سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے ایم ٹی آئی ایکٹ کے نام پر سرکاری ہسپتالوں میں نام نہاد اصلاحات اور صحت انصاف کارڈ کے نام پر عوام کے مفت علاج معالجے کا جو ڈرامہ رچایا تھا اس کے ثمرات اب سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اقتدار سے جاتے ہوئے سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کپتان اور کپتان کے اناڑی کھلاڑیوں کے عوام پر آسمانی بجلی بن کر گرنے والے کارنامے تاحال ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔

کپتانی ٹولے نے صحت اصلاحات اور انصاف کارڈ کے نام پر جو کارنامہ سر انجام دیا تھا وہ کارنامہ اب نہ صرف سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر سٹاف کے گلے پڑا ہوا ہے بلکہ اسی کارنامے سے اب عوام بھی جان چھڑا نہیں پا رہے۔ جن ہسپتالوں میں عوام کو وی آئی پی طریقے سے مفت علاج معالجے کے خواب دکھائے گئے تھے ایم ٹی آئی اصلاحات کی برکت سے آج ان ہسپتالوں میں عوام کو مفت ادویات دینے کے لئے بھی پیسے نہیں۔

ایم ٹی آئی کی برکت سے ہزارہ کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال ایوب میڈیکل کمپلیکس میں پچھلے بارہ دن سے غریب عوام رل رہے ہیں۔ وہ ہسپتال جہاں سونامی کی آفت اور مصیبت آنے سے پہلے عوام کا فری علاج ہوتا تھا اب ان ہسپتالوں میں بھی صحت انصاف کارڈ کی برکت سے عام ٹیسٹ اور معمولی علاج کے بھی عوام کو ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ صحت انصاف کارڈ سے غریب عوام کا علاج تو فری نہیں ہوا لیکن جن سرکاری ہسپتالوں میں پہلے عوام کا مفت اور فری علاج کیا جاتا تھا اب وہ علاج بھی مفت اور فری نہیں رہا ہے۔

ایم آر آئی اور سی ٹی سکین سمیت دیگر ٹیسٹوں اور علاج کے اب سرکاری ہسپتالوں میں بھی عوام سے اتنے ہی پیسے لئے جا رہے ہیں جتنے باہر پرائیوٹ ہسپتالوں اور قصاب خانوں میں وصول کئے جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ کپتان اور کپتان کے اناڑی کھلاڑیوں نے ایم ٹی آئی اصلاحات اور صحت انصاف کارڈ کے نام پر سرکاری ہسپتالوں کو تباہ اور برباد کرکے چھوڑا ہے تو بے جانہ ہوگا۔

صحت انصاف کارڈ کے ڈرامے کے ذریعے نجی ہسپتالوں کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں جتنی کرپشن اور لوٹ مار اس دور میں ہوئی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔ جو لوگ کل تک صحت انصاف کارڈ پر تالیاں بجا رہے تھے آج وہ علاج معالجے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے آنسو بہا رہے ہیں۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کے نام پر سرکاری ہسپتالوں میں اصلاحات اور تبدیلی کی جو فلم چلائی گئی تھی وہ پوری کی پوری فلم فلاپ بری طرح فلاپ ہوچکی ہے۔

مہذب معاشروں اور ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسا نہیں ہوتا جس طرح امریکہ اور برطانیہ کی مثالیں دے کر عمران خان اور اس کے ٹولے نے یہاں کے سرکاری ہسپتالوں میں کیا۔ بلی کے گلے پر چربی بھی کوئی باندھتا ہے؟ یا دودھ کی رکھوالی پر کوئی بلی کو مامور کرتا ہے؟ کپتان نے اپنے کزن نوشیروان برکی کو نوازنے اور بے سینک بادشاہ بنانے کی خاطر ایم ٹی آئی اصلاحات کے نام پر دودھ کے ہر سرکاری کٹوے پر نہ صرف بلیاں بلکہ ہر سرکاری ہسپتال میں بڑے بڑے بلے بھی مامور کئے جو دودھ کے ساتھ اور بھی بہت کچھ چاٹ گئے ہیں۔

آج سرکاری ہسپتالوں میں غریب عوام کے لئے جو ایک سرنچ تک دستیاب نہیں یہ سب اس ایم ٹی آئی کی برکات ہی تو ہیں۔ ایم ٹی آئی سے پہلے یہی ہسپتال اچھے بھلے طریقے سے چل رہے تھے یہاں عوام کا مفت علاج بھی ہوتا تھا اور ان کو ادویات بھی دی جاتی تھیں لیکن ایم ٹی آئی ایکٹ کے بعد خودمختاری کے نام پر ان سرکاری ہسپتالوں کا نظام و انتصرام چند مخصوص لوگوں یا ٹولے کے ہاتھ میں دینے سے اب ان ہسپتالوں میں غریبوں کا سوائے ایڑھیاں رگڑنے کے کچھ نہیں ہوتا۔

ایک ایم ایس اور چیف ایگزیکٹیو کے ذریعے جن ہسپتالوں کا کامیاب نظام چل رہا تھا ایم ٹی آئی نظام کے ذریعے ان ہسپتالوں کے اتنے مالک اور باپ بنا دیئے گئے کہ جن کا کوئی شمار نہیں۔ میڈیکل ڈائریکٹر، ہاسپیٹل ڈائریکٹر، نرسز ڈائریکٹر اور مینجرز کے نام پر ماہانہ لاکھوں کی تنخواہوں پر اتنے نکمے قسم کے افسر بھرتی کئے گئے کہ جن کا کوئی حساب نہیں۔ ہر وہ بندہ جن کا کپتان یا کپتان کے کسی کھلاڑی کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ تھا انہیں ان ہسپتالوں میں ڈائریکٹر یا مینجر لگایا گیا۔

پھر عمران خان کے کزن نوشیروان برکی کو ان سب کا باپ بنایا گیا۔ نوشیروان برکی جو اکثر باہر رہتے ہیں وہ سال دو نہیں بلکہ سالوں سے ان ہسپتالوں کو امریکہ سے آن لائن چلا رہے ہیں۔ یہی حال ان ہسپتالوں کے بورڈ آف گورنرز کے ممبران اور چیئرمینز کا بھی ہے۔ نوشیروان برکی کی طرح اے ٹی ایچ کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے آن لائن چلانے والے ڈاکٹر عاصم یوسف جو ہزارہ کے سب سے بڑے ہسپتال ایوب میڈیکل کمپلیکس کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین اور سربراہ ہیں، گرینڈ ہیلتھ الائنس خیبر پختونخوا کے مرکزی عہدیدار ڈاکٹر عبدالماجد کے مطابق آج تک وہ ڈاکٹر اور نرسز کیا؟ ہسپتال کے کسی ملازم سے بھی نہیں ملے۔

ہزارہ کے اس بڑے ہسپتال میں پچھلے بارہ تیرہ روز سے ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف کی ہڑتال ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام بلکہ کوہستان، گلگت اور کشمیر تک کے ہزاروں و لاکھوں لوگ علاج معالجے کے لئے روزانہ رل رہے ہیں مگر کمپلیکس کے اس بادشاہ کو اس کی کوئی خبر ہے اور نہ کوئی پرواہ۔ ڈاکٹر عاصم یوسف تو کہیں اپنی مستی میں مست ہوں گے لیکن ان کی مستی کی وجہ سے ہزاروں و لاکھوں لوگ روزانہ عذاب سے گزر رہے ہیں۔

بقول ڈاکٹر عبدالماجد کے پچھلے چند سالوں کے دوران صرف ایوب میڈیکل کمپلیکس میں ہزاروں و لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے اپنی ذات و مفاد کے لئے ہوا میں اڑائے گئے۔ اب آپ خود سوچیں۔ ایک ہسپتال کا یہ حال ہے باقیوں کا کیا انجام ہوگا؟ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ ایم ٹی آئی اور صحت انصاف کارڈ یہ اصلاحات اور تبدیلی نہیں بلکہ کرپشن اور لوٹ مار کے وہ راستے ہیں جن کو بعد میں بند کرنا یا روکنا آسان نہیں ہوگا۔ آج وہی خدشات حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

کپتان اور کپتان کے اناڑی کھلاڑیوں کے کارناموں سے تو معیشت کا جنازہ پہلے ہی نکل چکا تھا ان ہی کے کارناموں سے اب سرکاری ہسپتالوں کا جنازہ بھی نکل رہا ہے۔ کپتان تو جا چکے لیکن ان کی باقیات اب بھی اداروں میں موجود ہیں۔ اس گند کو اگر تمام اداروں، محکموں اور شعبوں سے صاف نہ کیا گیا تو یہ ظالم صحت کا شعبہ اور سرکاری ہسپتال کیا؟ ہر قومی ادارے اور محکمے کو اسی طرح تباہ کرکے فاتحہ پڑھنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اس سے پہلے کہ یہ کسی ادارے اور محکمے کو تباہ کرکے فاتحہ پڑھیں ان کا کام تمام کرکے ان پر پہلے ہی فاتحہ پڑھنا چاہئیے تاکہ ملک و قوم مزید کسی آزمائش، پریشانی اور مصیبت سے دوچار نہ ہو۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza