Siasat Koi Khel Nahi
سیاست کوئی کھیل نہیں
فرعون کے لہجے میں بولنے والے پھراسی طرح معافیاں مانگتے پھرتے ہیں۔ اسی لئے توکہاجاتاہے کہ انسان کواوقات میں رہناچاہئیے۔ جوش خطابت اورفرط جذبات میں جولوگ اپنے اوقات بھول جاتے ہیں ایسوں کی پھرکورٹ، کچہریوں میں ہی اوقات سے ملاقات ہوتی ہے۔ ہم پہلے ہی کہتے رہے کہ نادان کپتان کواس سٹیج اورنہج تک نہیں جاناچاہئیے جہاں سے پھرواپسی کاراستہ نہ ہومگرتکبر، غرور، خودپسندی اورخودغرضی کے لاعلاج مرض میں مبتلاکپتان کوناک رگڑنے کاکچھ زیادہ ہی شوق تھا، جس کے لئے انہوں نے نہ صرف اوقات کی ہرحدکو پارکیابلکہ اخلاقیات کوبھی پاؤں تلے روندنے سے دریغ نہیں کیا۔
اپنی اداؤں اور اناؤں پرقائم رہنے کی اگر ہمت نہیں توپھر ہر مجمع میں یہ روایتی اورعادتی للکار کیوں؟ انسان قد، کاٹ، عہدے اور رتبے کے لحاظ سے جتنابڑاہوتاہے اسی حساب اور کتاب سے وہ پھرنہ صرف زبان کھولتاہے بلکہ ایک ایک قدم پھونک اورچونک کراٹھاتا ہے، مگرکپتان شائد امریکی غلامی کی طرح اخلاقیات کی ان تکلیفوں اورمشقتوں سے بھی آزادہیں کہ انہیں زبان کھولتے اوراس طرح کے غیرضروری و نامناسب اقدام اٹھاتے ہوئے قدکاٹ اورسابق وزیراعظم والے لاحقہ کابھی کوئی خیال نہیں آتا۔
آڈیولیکس سے اور کچھ ہویانہ لیکن اس ایک بات کی تصدیق تو ہوگئی ہے کہ کپتان کاکام کھیلنا فقط کھیلنا ہی ہے۔ ویسے کرکٹ کا کھلاڑی کھیلنے کے سواجانتابھی کیاہے؟ کھلاڑی وہ چاہے کرکٹ کاہو۔۔ ہاکی، فٹبال، والی بال یاپھرباسکٹ بال۔ اس کاتوکام ہی کھیلناہوتاہے۔۔ یہ پوری دنیاجانتی ہے کہ عمران خان کوئی ڈاکٹر، انجینئر، تاجر، سرمایہ کار، صعنتکار، سیاستدان اورسائنسدان نہیں بلکہ وہ کرکٹ کے ایک کھلاڑی ہیں اورکھلاڑی بھی ایسے کہ جن کی کپتانی میں پاکستان 1992کاورلڈکپ بھی جیت چکے ہیں۔۔
اب اگروہ کہے کہ ہم نے سائفرپرکھیلنا ہے تواس میں حیران یاپریشان ہونے والی بات کیا؟ اگرانصاف کی نظروں سے دیکھاجائے توکھلاڑی کوکھیلنے کے لئے توایک بہانہ چاہئیے ہوتاہے وہ چاہے سیاست، حکومت، اقتدار اور وزارت عظمی کے ذریعے ہویاپھرکسی سائفر اور وائپرکے ذریعے۔ جن لوگوں کوکپتان کی آڈیولیکس سے تکلیف اورکھیلنے والی بات پریوتھیوں کی طرح دل کے دورے پڑنے شروع ہوگئے ہیں کیاان لوگوں کوکپتان کے ان ساڑھے تین چارسالوں کی برکات و انوارات کاکوئی علم اورکوئی اتہ پتہ نہیں؟ جن ساڑھے تین چار سالوں میں کپتان صرف سائفر نہیں بلکہ مسافروں کی کھوپڑیوں سے بھی خوب کھیلے۔
کیاعمران خان اپنی حکمرانی میں عوام کی امنگوں، امیدوں اورآرزوؤں سے نہیں کھیلے؟ کیاکپتان ساڑھے تین سال تک غریبوں کی غربت سے کھیلواڑ نہیں کھیلتے رہے؟ کیاعمران خان اس ملک میں سیاست کے نام پراخلاق اور شرافت سے نہیں کھیلے؟ کیا کپتان نے ساڑھے تین سال میں میرٹ اور انصاف کے چھکے اور پرخچے نہیں اڑائے؟ کیاعمران خان اپنے دورمیں ملک کی معیشت اورترقی سے گراؤنڈکے چاروں طرف جم کرنہیں کھیلے؟ صرف تین چارسالوں میں ملک کومہنگائی خانہ بناکرغریبوں کوغربت، بھوک اورافلاس کے منہ میں دھکیلنا کیا یہ کھیلنا نہیں؟ اور کھیلنا پھر کسے کہتے ہیں؟
ساڑھے تین سال وفاق کے گراؤنڈپرعمران خان جس طرح اس ملک کے مجبور، لاچار اور بے بس عوام سے کھیلے واللہ غریبوں کے اس طرح چھکے اورچوکے توان حکمرانوں اورسیاستدانوں جن کوکپتان آج بھی چوراورڈاکوکہتے ہوئے نہیں تھکتے انہوں نے بھی کبھی نہیں اڑائے۔ پچاس کی چیز کو سو اور سو والی شئے کو ہزار تک پہنچانے کوہی توکھیلنا کہتے ہیں اورعوام جانتے ہیں کہ یہ کھیل اس ملک میں کس نے کھیلاہے۔ اسی کھیل کااثر و ثمر توہے کہ اب لوگ کپتان کے 1992 والے کھیل کوبھی بھول چکے ہیں۔
کوئی مانیں یانہ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کپتان کاکام کھیلناصرف کھیلناہے۔ وہ چاہے گیند اور بیٹ کے ذریعے ہویاپھرعوام کی کھوپڑیوں اورٹوکریوں کے ذریعے۔ معیشت کی ڈولی نکلتی ہے یاجنازہ؟ عوام بھوک سے مرتے ہیں یابے انصافی سے؟ لوگوں کے مکان بنتے ہیں یاگرتے؟ ملک میں کوئی کام کاج اورکاروبارہے یانہیں؟ غربت ختم ہوتی ہے یاغریب؟ ان چھوٹی چھوٹی باتوں اورفضول چیزوں سے کپتان کانہ پہلے کوئی لینادیناتھااورنہ اب ہے۔ کپتان کے لئے بس کھیلنے کے لئے گراؤنڈاورکراؤڈچاہئیے۔
ملک سے جس وقت معیشت کاجنازہ نکل رہاتھا اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا کپتان اس وقت اگرکھیلنے کونہیں بھولے تواب یا آگے یہ اس کھیل کوکیسے بھول پائیں گے؟ عمران خان سیاست کوبھی کرکٹ کی طرح ایک کھیل سمجھتے ہیں۔ ہم پہلے بھی کئی بارکپتان کی خدمت میں عرض کر چکے ہیں اوراب بھی اس گستاخی کاارتکاب کررہے ہیں کہ خان صاحب یہ سیاست ہے کرکٹ یابچوں کا کوئی کھیل نہیں۔ سیاست لوگ عوام کی خدمت کے لئے کرتے ہیں کوئی کھیل کودیاکوئی ورلڈکپ جیتنے کے لئے نہیں۔ یہاں عوام کے دل جیتے جاتے ہیں کوئی کپ نہیں۔ اس ملک کے عوام نے آپ سے بڑی امیدیں اورتوقعات وابستہ کی تھیں لیکن افسوس آپ اس ملک کے 22کروڑعوام کوگیند(بال)سمجھ بیٹھے۔
آپ نے اپنے بلے کے ذریعے عوام کے سروں پرمہنگائی، غربت، بیروزگاری اوربے انصافی کے جوشارٹس لگائے ہیں اس کے جھٹکے اب تک عوام محسوس کررہے ہیں۔ آج دو ڈھائی ہزارروپے کاصرف بیس کلوآٹا لیتے ہوئے جب عوام مہنگائی کی فریادکرتے ہیں توآگے سے جواب ملتاہے کہ یہ اس کھیل کانتیجہ ہے جوعمران خان ساڑھے تین سال تک کھیل کرگئے ہیں۔ خان صاحب آپ اگراپنے دوراقتدارمیں سیاست کے نام پراس طرح کے نت نئے کھیل نہ کھیلتے توآج اس ملک میں غریبوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔
ساڑھے تین سال تک مہنگائی، غربت اوربیروزگاری کے پہاڑ تلے دبنے والے عوام آپ کومسیحا سمجھ کربلاتے اورپکارتے رہے لیکن آپ کوسائفراوروائپرپرکھیلنے سے فرصت نہیں ملی۔ خان صاحب اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک اچھے اورتجربہ کارکھلاڑی ہیں، آپ پہلے بھی کھیلے ہیں، اب بھی کھیل رہے ہیں اورآئندہ بھی کھیلیں گے لیکن خان صاحب خدارا غریبوں کی مجبوریوں، لاچارگیوں اوربے بسیوں سے یہ کھیلنا شیلنا بند کردیں۔
عوام اگرآپ کولیڈر، قائداورایک کپتان سمجھتے ہیں تواس کایہ مطلب نہیں کہ آپ ان کے ہی سروں سے کھیلناشروع کردیں۔ یہ سیاست اورخدمت کامیدان ہے کرکٹ، ہاکی یافٹبال کاکوئی کھیل نہیں کہ آپ کے ہاتھ جولگے آپ اس پر کھیلنا شروع کردیں گے۔