Siasat Kaptan Ke Bas Ki Baat Nahi
سیاست کپتان کے بس کی بات نہیں
ہم پہلے بھی کہتے رہے اور اب بھی کہتے ہیں کہ سیاست عمران خان جیسے لوگوں کے بس کی بات نہیں، جو لوگ سیاست میں ملک کی بقاء اور سلامتی تک کو بھول جائیں ایسے لوگوں کو سیاستدان نہیں شیطان کہا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے کلمہ کے نام پر بننے والے ملک کی بقاء اور سلامتی پر مر مٹنا، تن، من اور دھن تک قربان کرنا یہ تو ایمان کا حصہ ہے۔ کوئی شہری پھر کوئی مسلمان اپنے ملک اور وطن کی بقاء و سلامتی سے غافل کیسے رہ سکتا ہے؟
اپنی سیاست، اقتدار اور کرسی کے لئے عمران خان جہاں تک گئے اسے کسی بھی طور پر اس نہج اور مقام تک نہیں جانا چاہئیے تھا۔ نو مئی کے واقعات اور بے غیرتی میں تحریک انصاف کے کارکن اور کپتان کے کھلاڑی ملوث ہیں یا نہیں؟ یہ نہ ہمارا سوال ہے اور نہ موضوع۔ ایسے سوالوں کے جواب ڈھونڈنا جن کا کام ہے وہ ان سوالوں کے جواب بھی ڈھونڈیں گے اور اس سے جڑے سارے کردار بھی۔ ویسے ایک منٹ کے لئے اگر مان بھی لیا جائے کہ نو مئی کے واقعات میں کپتان اور کپتان کے کھلاڑیوں کا کوئی ہاتھ نہیں تب بھی یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوج کے خلاف بیانیہ بنانے اور نشانے پر رکھنے میں کپتان اور کپتان کے کھلاڑیوں کا ہاتھ نہیں؟
اقتدار کی گلی سے رخصتی اور وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد کیا کپتان اور کپتان کے کھلاڑیوں نے فوج کو نشانے پر نہیں رکھا؟ فوج تو کسی ایک جنرل یا چند جرنیلوں کا نام نہیں۔ فوج تو ان لاکھوں جوانوں کا نام ہے جو 75 سال سے جان ہتھیلی پر رکھ کر پہاڑوں، بیابانوں، گھنے جنگلات، چٹیل میدانوں اور ویرانیوں میں ملک کی بقاء و سلامتی کے لئے اپنا خون بہا رہے ہیں۔ کپتان اور کپتان کے کھلاڑیوں کا اگر کسی ریٹائرڈ جنرل اور کرنل سے کوئی سیاسی اور ذاتی مسئلہ تھا یا ہے تو اس میں ان لاکھوں فوجیوں اور قوم کے عظیم مجاہدوں کا کیا قصور؟
باجوہ کے بغض اور فیض کی محبت میں پوری فوج کو نشانے پر رکھتے ہوئے عمران خان اور ان کے کھلاڑی یہ بھی بھول گئے کہ اس ملک کے اندر یوتھیے آزادی کی جو سانسیں لے رہے ہیں، راتوں کو بے خوف و خطر ہو کر چین و سکون کی جو نیند سو رہے ہیں، اس کے پیچھے یہی فوج ہے۔ یہ فوج اگر نہ ہوتی تو معلوم نہیں کہ آج اس ملک اور اس میں رہنے والے ان یوتھیوں کا کیا انجام اور کیا حشر ہوتا؟ اپنی سیاست کے لئے جس فوج کو نشانے پر رکھا گیا اسی فوج کے جوان راتوں کو جاگتے ہیں تو تب ہی ہم چین و سکون کی نیند سوتے ہیں۔
پاک فوج کے لاکھوں جوان یہ صرف اس ملک اور وطن کے چوکیدار نہیں بلکہ یہ ہم سب کے محافظ بھی ہیں۔ مہذب معاشروں اور ترقی یافتہ ممالک میں اپنے محافظوں کے ساتھ ایسا سلوک تو نہیں کیا جاتا۔ ہمارے سیاستدانوں باالخصوص عمران خان نے اپنی سیاست اور مفادات کے لئے پاک فوج کو جس طرح نشانہ بنایا وہ قابل افسوس ہی نہیں بلکہ قابل مذمت و مرمت بھی ہے۔ سیاست اس ملک کے اندر نواز شریف، آصف علی زرداری، سراج الحق، مولانا فضل الرحمٰن اور چوہدری شجاعت نے بھی کی اور کر بھی رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنی سیاست اور اقتدار کے لئے فوج کو کبھی اس طرح نشانہ تو نہیں بنایا۔
سیاستدان یہ تو اقتدار و حکومت میں آتے رہتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اقتدار کی گلی سے نکلتے ہی پھر پاک فوج کو نشانے پر رکھ لیا جائے۔ کیا نواز شریف کو عمران خان سے بھی زیادہ برے طریقے سے اقتدار کی گلی سے نہیں نکالا گیا؟ عمران خان اب فرما رہے ہیں کہ نو مئی کے واقعات میں ہمارا کوئی کردار نہیں، کوئی تو اس صاحب سے پوچھے کہ اقتدار ہاتھ سے جانے کے غم میں فوج کو باقاعدہ اپنے ایک فریق کے طور پر کس نے پیش کیا؟ وزیراعظم بننے کے خواب کو پورا کرنے کے لئے پہلے جنرل باجوہ کو یوتھیوں کا باپ بنایا لیکن جب اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور اناء کی وجہ سے حکومت ہاتھ سے گئی تو پھر اس باپ کے ساتھ پوری فوج کو بدنام کرنا شروع کر دیا۔
باپ اور بیٹوں کے معاملے و مسئلے میں پوری فوج کو گھسیٹنے اور نشانہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ نو مئی کا واقعہ تو اصل میں اسی دن رونما ہو چکا تھا جب کپتان اور کپتان کے کھلاڑیوں نے اقتدار سے محرومی کا بدلہ لینے کے لئے پوری فوج کو اپنے نشانے پر رکھا۔ پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر کیا کیا ٹرینڈ نہیں چلائے گئے، جو کام بھارت جیسے اذلی دشمن بھی ستر 75 سال میں نہیں کر سکے وہ کام بھی یوتھیوں اور ان کے بھگوان نے ایک سال میں کر دیئے۔
کپتان اور یوتھیوں کا اصل دشمن تو امریکہ تھا انہوں نے تو گوروں سے آزادی لینی تھی پھر نو مئی کو یہ کورکمانڈر ہاؤس اور فوجی تنصیبات پر کیوں چڑھ دوڑے؟ ان کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن جن خدشات اور تحفظات کا اظہار فرما رہے ہیں کہیں اصل مسئلہ اور اصل کہانی وہی تو نہیں؟ اس ملک اور قوم کی رتی برابر محبت بھی جس دل میں ہوگی وہ پاک فوج کی طرف شک کی نگاہوں سے کبھی نہیں دیکھے گا۔ کپتان اور یوتھیوں کے دل اگر ملک و قوم کی محبت سے کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں تو پھر ان کو فوج سے کیا مسئلہ اور کیا پریشانی ہے؟
پاک فوج سے مسئلہ اور پریشانی تو انہی کو ہو سکتی ہے جو غیروں کے آلہ کار ہوں۔ نو مئی کے واقعات پر ہر دل زخمی اور ہر آنکھ پرنم ہے۔ قوم تاریخ کا یہ سیاہ دن کبھی نہیں بھول پائے گی۔ ان واقعات اور اس سازش میں جو بھی لوگ ملوث ہیں چاہے وہ اپنے ہیں یا بیگانے سب کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ ملک اور قوم کی بقاء و سلامتی یہ سیاست کیا؟ ہر چیز سے بالا و برتر ہے۔ یہ ملک و قوم ہے تو یہاں سیاست اور خباثت ہوگی۔ اللہ نہ کرے اگر یہ ملک و قوم نہ رہے تو پھر عمران خان اور ان کے یوتھیے کہاں اور کس پر سیاست و خباثت کریں گے؟
ویسے ایک گرفتاری پر کپتان اور یوتھیوں نے اس ملک کے اندر جو کھیل کھیلا ہے اس سے نہیں لگتا کہ کپتان اور عقل و دماغ سے خالی ان کے یوتھیے سیاست کے کوئی اہل یا قابل ہیں۔ سیاست وہی لوگ کرتے ہیں جن میں عقل و شعور ہو جن لوگوں میں عقل و شعور نام کی کوئی چیز نہ ہو وہ پھر سیاست نہیں اس طرح کی خباثت ہی کریں گے۔ مانا کہ عمران خان بڑے لیڈر بھی ہوں گے اور لاکھوں یوتھیوں کے قائد بھی لیکن معذرت کے ساتھ کپتان سیاست کے لائق نہیں کیونکہ سیاستدان کا کام ملک بچانا ہوتا ہے جلانا نہیں۔