Shahbaz Sharif Aage Barhein
شہبازشریف آگے بڑھیں
لوگ رات کواس امید، تمنااورانتظارمیں آنکھیں بندکرکے سوجاتے ہیں کہ آنے والادن اچھااورپرسکون ہوگالیکن صبح اٹھ کرپتہ چلتاہے کہ جودن گزرگیاوہی تو اچھاتھا۔ مہنگائی، غربت اوربیروزگاری نے عوام کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ سردیوں میں گیس اورگرمیوں میں بجلی کے بھاری بلوں نے تولوگوں سے زندگی کاچین اورسکون تک چھین لیاہے۔ غریب لوگ اب بجلی اورگیس کے بلوں کانام سن کرہی کانپنے لگتے ہیں۔
بجلی بل اس وقت عوام پرجس طرح آسمانی بجلی بن کرگررہے ہیں یہی صورت حال اگررہی تواس ملک میں عوام کاجینامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بجلی بلوں پرعوام کوریلیف دینے کاوعدہ کیاتھالیکن اس کے باوجوداس مہینے عوام کے بجلی بل پھرحدسے زیادہ آئے ہیں۔ اتنی لوگوں کی آمدن نہیں جتنے ان کے بل آرہے ہیں۔ ایک غریب مزدورجوپورے مہینے کاتیس چالیس ہزارروپے کماتاہووہ پندرہ بیس ہزارکابل کیسے اورکہاں سے جمع کرے گا؟ صرف بجلی کابل تونہیں جمع کرنا، اس ملک میں بجلی، گیس اورٹیلی فون بلوں کے علاوہ بھی سکول فیس، ٹیوشن فیس، مکان کے کرائے، علاج معالجہ، کھاناپینااورجسم ڈھانپنابھی ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے ماہانہ تیس چالیس ہزارروپے تنخواہ لینے والے غریب صرف بجلی وگیس کے بل بھریں گے یاکچھ کھائیں گے پئیں گے بھی؟
سچ پوچھیں تواس ملک میں اب غریبوں کارہنااورجینامشکل بہت مشکل ہوگیاہے۔ غربت نے آج اس ملک میں ہرگھراوردرپرڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کچھ کی زندگیاں توآرام وسکون سے گزررہی ہیں لیکن ملک میں عوام کی اکثریت اس وقت بہت مشکل میں ہے۔ چنددن پہلے گاؤں میں قیام کے دوران ایک رشتہ دارنے باتوں باتوں میں ایک پڑوسی کی غربت کاتذکرہ کیا تویقین مانیں اپنی بھی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ فلاں پڑوسی کی بیٹی جس کی منگنی اٹھ سال پہلے ہوچکی ہے غربت کی وجہ سے شادی نہیں ہورہی، کل میں اس کے باپ کواس کی شادی کرانے پرتیارکررہاتھاکہ اس کی چھوٹی بیٹی آئی اوربولی چچاہماری بہن اس گھرسے اسی طرح خالی ہاتھ جائے گی، وہ کہہ رہاتھایہ سن کرآنکھیں تومیری نم ہوگئیں لیکن اس سوال کاجواب میرے پاس بھی نہیں تھا، میرے اپنے ہاتھ خالی تھے میں اس کوکیاجواب دیتا۔
معلوم نہیں اس ملک میں ایسی کتنی جوان بیٹیاں غربت کی وجہ سے شادی کے انتظارمیں بیٹھی جوانی کی عمرگزارچکی ہیں، نہ جانے کتنی بچیاں اوربچے غربت کی وجہ سے سکول، کالج اوریونیوسٹیوں کوچھوڑکرگھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ معلوم نہیں اس ملک میں ایسے کتنے لوگ علاج معالجہ کی سکت نہ رکھنے کے باعث غربت کے ہاتھوں ایڑھیاں رگڑرگڑکرزندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ عوام مہنگائی، غربت اوربیروزگاری کی آگ میں جل رہے ہیں مگرہمارے حکمرانوں کواس کی کوئی پرواہ نہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒؒ بھی توایک حکمران تھے۔
حضرت شیخ سعدیؒ سے روایت کردہ ایک حکایت کو کہیں پڑھاتھاجس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی انگوٹھی میں ایک ایسا نگینہ جڑا ہوا تھا جس کی اصل قیمت کا اندازہ کوئی جوہری بھی نہیں لگاسکتا تھا۔ وہ نگینہ دریائے نور تھا۔ وہ رات کو دن میں بدل دیتا تھا۔ ایک مرتبہ سخت قحط کی صورتحال ہوگئی اور لوگ بھوک سے مرنے لگے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے جب حالات کی سنگینی کا مشاہدہ کیا تو آپؒ نے اپنی انگوٹھی کے اس نگینے کو لوگوں کی مدد کے لئے بازارمیں فروخت کردیا اور اس سے جو قیمت ملی اس سے اناج خرید کر لوگوں میں تقسیم فرمادیا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے رفقاء کو جب اس نگینہ کی فروخت کا علم ہوا تو ان میں سے ایک نے آپؒ سے کہا کہ ایسا بیش قیمت نگینہ آپ نے فروخت کردیا؟ آپ نے اس کی بات سن کر فرمایا کہ مجھے بھی وہ نگینہ بے حد پسند تھا لیکن میں یہ کیسے گوارا کرلیتا کہ میری رعایا بھوک سے مررہی ہو اور میں اتنا قیمتی نگینہ پہنے رکھوں۔ کسی بھی حاکم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کا خیال رکھے اور جب لوگوں کو تکلیف میں مبتلا دیکھے تو اپنا آرام بھول جائے۔ یہ فرماکر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
کاش ہمارے درمیان بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیساکوئی حکمران ہوتا، اس ملک اوریہاں کے عوام کوحضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے حکمران کی ضرورت ہے، جوہمارے ان حکمرانوں اورسیاستدانوں کی طرح محض دعوؤں اوروعدوں سے کام نہ چلائے بلکہ حقیقی اورعملی طورپرعوام کی خدمت کریں۔ کوئی مانیں یانہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کے اکثرعوام غربت، بیروزگاری اورمہنگائی کی وجہ سے آج بہت مشکل حالات سے گزررہے ہیں۔ اتناملک مشکل میں نہ ہوگاجس قدراس وقت اس میں رہنے والے عوام ہیں۔ نوازشریف نے ملک کے ساتھ ہمیشہ غریب عوام کابھی خیال رکھا۔
وزیراعظم شہبازشریف کواپنے بھائی کے نقش قدم پرچلتے ہوئے غریب عوام کی آہیں اورسسکیاں سن لینی چاہئیے، یہ قوم اورعوام اس وقت رحم اورکرم کے قابل ہیں۔ شہبازشریف اگران کے زخموں پرمرہم نہیں رکھیں گے تواورکون رکھے گا؟ وزیراعظم کووعدے کے مطابق نہ صرف بجلی بلوں پرعوام کوریلیف دیناچاہئیے بلکہ آٹا، چینی اورگھی سمیت اشیائے ضروریہ پربھی نظررکھنی چاہئیے، تاکہ اس ملک میں کوئی غریب غربت کے ہاتھوں بھوکانہ سوئے۔
دریائے فرات کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کی پوچھ اگرحضرت عمرؓ سے ہوگی توپھراس ملک میں بھوک وافلاس سے مرنے والے انسانوں کی پوچھ ہمارے ان حکمرانوں سے کیسے نہیں ہوگی؟ ہرحکمران اپنی رعایاکاذمہ دارہوتاہے۔ سیاسی بحران اورمسائل اپنی جگہ لیکن اس وقت شہبازشریف ہی اس ملک کے حکمران ہیں اس لئے بائیس کروڑعوام کی ذمہ داری شہبازشریف کے سرہے۔ ماناکہ ملک میں اتحادی حکومت ہے، مسلم لیگ ن سے زیادہ اتحادی جماعتیں اقتداراورحکومت کے مزے اٹھارہی ہیں لیکن شہبازشریف چونکہ ملک کے وزیراعظم ہیں اس لئے عوامی مسائل میں انگلیاں صرف اس کی طرف اٹھ رہی ہیں۔
اللہ نہ کرے اگرعوام کے یہ حالات نہ بدلے توکل کوبھی انگلیاں شہبازشریف اورن لیگ کی طرف اٹھیں گی اس لئے وزیراعظم کوایک نہیں سوقدم آگے بڑھ کر عوامی مسائل کے حل کے لئے اپنابھرپورکرداراداکرناچاہیئے تاکہ عوام نوازشریف کی طرح شہبازشریف کے اس دورکوبھی پھربھول نہ سکیں۔