Pak Fauj Hamri Red Line
پاک فوج ہماری ریڈلائن
جس طرح قوم کی حفاظت اور ملک کی بقاء کے لئے پاک فوج کی قربانیاں، جدوجہد، ہمت وعزم بے لوث اور لازوال ہے۔ اسی طرح افواج پاکستان کے ایک ایک سپاہی اور قوم کے ایک ایک محافظ کے لئے ہماری محبت اور چاہت بھی بے لوث، لازوال اور بے مثال ہے۔ گرمی ہو یاسردی، ہر موسم اور ہرآفت میں رات کے آخری پہرلائن آف کنٹرول اور سیاچن۔
جیسے دور افتادہ علاقوں اور سنگلاخ پہاڑوں میں ملک وقوم کی حفاظت کے لئے پہرہ دینے والے اگر ایک لمحے کے لئے ہمیں نہیں بھولتے تو پھر قوم کے ایسے جانثار سپاہیوں اور محافظوں کو ہم کیسے بھولیں؟ دسمبر کی ٹھٹھرتی راتوں میں برف پوش پہاڑوں پر ساری ساری رات چوکیداری کیا یہ کوئی آسان کام ہے؟ ایئرکنڈیشن کمروں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ کرپاک فوج کے خلاف بھونکنا تو آسان ہے۔
مگر لائن آف کنٹرول پرجان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کا مقابلہ کرنا مشکل بہت ہی مشکل ہے۔ افواج پاکستان کے خلاف بھونکنے والے ایک صرف ایک دن ایل اوسی اور سیاچن میں گزار کر تو دکھائے۔ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف مورچے اور محاذ کھول کریہ جو بہادر بنے بیٹھے ہیں۔ ان کو ایک دن نہیں صرف چندگھنٹوں کے لئے بھی اگر اگلے نہیں پچھلے محاذ پر بھی بھیجا جائے۔
تو آپ یقین کریں یہ گھنٹوں نہیں منٹوں میں یہ ملک ہی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ یہ تو پاک فوج کے جوان ہی ہیں۔ جو تمام تر نامساعد حالات اور ہر قسم کے مشکلات کے باوجود سینہ تھان کر، آج بھی دشمن کے خلاف اگلے محاذ پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ہمارے یہ بھونکنے والے نام نہاد بہادر جو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ جیب میں لئے پھرتے ہیں یہ تو آنسو گیس، پولیس لاٹھی چارج اور ڈنڈے کو دیکھ کر نانی یاد کرنے اور پکارنے لگتے ہیں۔
خود سوچیں، ان کا سامنا جب سیاچن اور لائن آف کنٹرول پر اگلے کسی محاذ پر انڈین جیسے مکار دشمن سے ہو گا۔ اس وقت پھر ان کی کیا حالت ہو گی؟ ہم نے اس ملک میں آمریت کی کوئی حمایت کی اور نہ ہی سیاست میں انگلیاں مارنے والے جرنیلوں کے کوئی قصیدے لکھے۔ لیکن ایک بات پہلے بھی ڈنڈے کی چوٹ پر کی اور آج بھی کرتے ہیں کہ یہ ملک اسی فوج کی وجہ سے بچا ہوا ہے۔
آج یہ جو سیاسی لو فرلفنگے، چرسی اور پوڈری جن سیاستدانوں، لیڈروں اور قائدین کی سیاست اور محبت میں اندھے، گونگے اور بہرے ہو کر، اس فوج کے خلاف بھونک رہے ہیں۔ ان کے انہی سیاستدانوں، لیڈروں اور قائدین کا اگر ذرہ بھی کوئی بس چلتا تو وہ اقتدار اور کرسی کے لئے اس ملک کو کب کے بیچ چکے ہوتے۔ جولوگ اقتدار اور کرسی کے لئے ملک وقوم کی سلامتی کا کوئی خیال رکھتے ہیں۔
اور نہ ہی اہم وحساس قومی اداروں کو معاف کرتے ہیں وہ اقتدار اور کرسی کے لئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ یہ تو اللہ کا شکر اور خاص کرم ہے کہ اس ملک کا دفاع ان ہاتھوں میں ہے۔ جن ہاتھوں نے اس ملک کو اب تک لیبیا، عراق، شام اور افغانستان بننے سے روکے رکھا ہے۔ آج جن قومی محافظوں کو برا بھلا کہہ کر گالیاں دی جا رہی ہیں۔
ملک وقوم کے یہی محافظ اگر نہ ہوتے تو آج ہماری حالت بھی شام، عراق، لیبیا اور افغانستان سے ہر گز مختلف نہ ہوتی۔ سیاچن اور لائن آف کنٹرول سے ہٹ کر بھی اس ملک وقوم پر سیلاب، زلزلہ اور دہشتگردی سمیت آزمائش وامتحان کی کوئی گھڑی آتی ہے، تو اس وقت پاک فوج کے یہی جوان اور قوم کے یہی محافظ ہوتے ہیں۔ جو فرنٹ لائن پر اپنی جانوں سے کھیل کر ملک وقوم کو اس آزمائش سے نکالتے ہیں۔
ہم تو اپنی ماؤں اور بچوں کی خاطر گھروں سے ہی نہیں نکلتے، کیا قوم کے ان محافظوں کی مائیں اور بچے نہیں ہوتے؟ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس ملک وقوم کی خاطر جو جوان اگلے مورچوں اور محاذوں پر جام شہادت نوش کرکے خونی لباس میں بے جان جسم اور بند آنکھوں کے ساتھ تابوت میں واپس گھروں کو لوٹتے ہیں تو اپنے جگر گوشوں کو خون میں اس طرح لت پت دیکھ کر۔
ان کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں پر کیا گزرتی ہو گی؟ باہر جب حالات خراب ہوتے ہیں تو تمہیں مائیں کہتی ہیں کہ بیٹا گھر سے باہر نہ جانا حالات خراب ہیں، تمہیں کوئی چوٹ لگ جائے گی یا کوئی نقصان پہنچ جائے گا۔ صرف ایک منٹ کے لئے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ سیلاب اور زلزلہ کیا؟ گولیوں کی پوچھاڑ میں سروں پر کفن باندھ کرنکلنے والے ان قومی محافظوں کو جب ان کی مائیں رخصت کرتی ہونگی۔
تو ان کے دلوں پر اس وقت کیا بیت رہی ہو نگی؟ آپ کے یہ سیاستدان، یہ قائد اور یہ لیڈر تو جان کے معمولی خطرے کے پیش نظر بھی پلٹ پروف گاڑیوں اور مکانوں میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن آپ نے کبھی یہ سنا ہے کہ قوم کا کوئی محافظ بم دھماکے یاکسی خودکش حملے کی وجہ سے گھر میں چھپ کر بیٹھ گیا ہے۔ یہی وہ لوگ اور ملک وقوم کے اصل ہیرو ہیں۔
جو ہمارے ہی کل کے لئے اپنا آج قربان کر رہے ہیں۔ آپ کے یہ سیاستدان، یہ لیڈر اور یہ قائد تو ستر سال سے ہمیں مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جیسی ان چھوتی چھوٹی بلاؤں سے نہیں بچاسکے، لیکن ہمارے یہ ہیرو اللہ کی مدد اور نصرت سے آج تک ہمیں خطر ناک سے خطر ناک دشمن سے بھی بچا رہے ہیں۔ آپ کے لئے عمران خان ریڈلائن ہوں گے یا نوازشریف یا آصف علی زرداری یا مولانافضل الرحمن۔
لیکن ہمارے لئے پاک فوج کے یہی بہادر اور جانثار جوان ہی ریڈلائن ہیں۔ کپتان کے کھلاڑی ہوں یا دیگر سیاسی پارٹیوں کے کوئی اناڑی۔ ہماری اس ریڈلائن کو جو بھی کراس کرے گا۔ ہمارے لئے پھر ان میں اور بھارتی ایجنٹ وسور ماؤں میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں۔ لیکن اس ریڈلائن کو کراس کرنا ہمیں کسی بھی طور پر گوارا نہیں۔
سیاسی کارکن اور سیاستدان بے شک اپنی سیاست کریں۔ لیکن پاک فوج سمیت دیگر قومی اداروں کو بیچ میں لانے سے گریز کریں۔ یہ کان کھول کر ایک بات نوٹ کرلیں کہ یہ سیاست اور خباثت تب کریں گے، جب یہ ملک ہوگا اور یہ ملک تب ہو گا، جب پاک فوج ہوگی۔ ہماری پشت پر پاک فوج نہ رہی تو پھر یہ ملک بھی باقی نہیں رہے گا۔
پاک فوج ہے تو یہ ملک ہے ورنہ لیبیا، شام، عراق اور افغانستان کی مثالیں اب بھی ہمارے سامنے ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ تمہاری ریڈلائن چاہے۔ جو بھی ہو لیکن ہماری ریڈلائن پاک فوج، صرف پاک فوج ہی ہے۔