Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umar Khan Jozvi
  4. Mehngai Ke Khilaf Tareekhi March

Mehngai Ke Khilaf Tareekhi March

مہنگائی کیخلاف تاریخی مارچ

کپتان والی مرغیاں۔ وہ تو کپتان سے بھی دو نہیں سو قدم آگے نکلی ہیں۔ آج کل ہاتھ ہی نہیں آ رہی ہیں۔ شائد مرغیوں کی اسی بدمعاشی کو سامنے رکھتے ہوئے خان نے ہر چھوٹے بڑے کو مرغیاں پالنے کا مشورہ دیا تھا، اس وقت اس مشورے پر عمل کیا جاتا تو آج مرغی جی کے یہ نخرے نہ اٹھانے پڑتے۔ ادھر پانی میں گوندھا جانے والا آٹا اسے بھی آج کل کوکین کی طرح کوئی ایسا نشہ چڑھا ہوا ہے کہ اس کے ناز نخرے بھی کم نہیں ہو رہے۔

کپتان کی محبت کے باعث مرغیوں اور انڈوں کو تو ہم نے پہلے ہی پی ٹی آئی میں شامل کر لیا تھا لیکن اب اشیائے ضروریہ کی روزانہ کی بنیاد پر ان چھلانگ لگاتی قیمتوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے آٹا، چینی، گھی، چاول اور دال سمیت ان دیگر ضروری اشیاء کا تعلق بھی کہیں تحریک انصاف سے ہو۔ کاش کہ اعظم سواتی اور شہباز گل کی طرح آٹا، چینی، گھی، چاول، دال، مرغی اور انڈوں کا سچ میں کپتان اور پی ٹی آئی سے کوئی تعلق ہوتا۔ پھر ہم دیکھتے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ان کی یہ قیمتیں کیسے چھلانگیں مارتیں؟

پی ڈی ایم سے یاد آیا ماضی قریب میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں جب اسی طرح بے لگام ہوتیں تو مولانا کی پارٹی سمیت پی ڈی ایم میں شامل تقریباً اکثر بڑی سیاسی جماعتوں و پارٹیوں نے مہنگائی کے خلاف ایک نہیں کئی تاریخی مارچ اور لانگ مارچ کئے تھے۔ اب ملک میں پی ڈی ایم کی اپنی حکومت ہے۔ مارچ اور لانگ مارچ پر کوئی پابندی ہے اور نہ ہی کوئی روک ٹوک۔

جس طرح مولانا کی امامت میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیوں اور لیڈروں نے مہنگائی و جمہوریت کے لئے مارچوں پر مارچ کئے اسی طرح کے ایک دو مارچ اگر اب مہنگائی صرف مہنگائی کے خلاف کئے جائیں تو جس طرح ان مارچوں کی وجہ سے عمران کی حکومت سے عوام کی جان چھوٹی اسی طرح اب اس ملک سے مہنگائی نامی اس آفت اور بیماری سے بھی عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔

لیکن اقتدار کے اس موسم میں مولانا اور ان کے سیاسی مریدوں کے لئے مارچ اور لانگ مارچ یہ ممکن نہیں کیونکہ اس ملک کی یہ روایت اور ہماری یہ عادت رہی ہے کہ یہاں مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خلاف مارچ، لانگ مارچ، جلسے، جلوس، ہڑتال اور مظاہرے وہی لوگ کرتے ہیں جو اقتدار کی گلی اور محل سے باہر اور دور ہوتے ہیں۔ مطلب جو لوگ سیاسی طور پر بیروزگار ہوں۔

مولانا اور ان کے سیاسی مرید بھی ملک میں تحریک انصاف کی حکومت کے باعث جب تک بیروزگار تھے تو وہ مہنگائی کے خلاف نہ صرف مارچ و لانگ مارچ بلکہ جلسے، جلوس، ہڑتال اور مظاہرے بھی کیا کرتے تھے لیکن جب سے نئی حکومت میں امام و مقتدیوں کو نوکریاں ملی ہیں تب سے آج تک ان کی زبان سے کسی نے مہنگائی کے خلاف کوئی خاص وعظ و تقریر نہیں سنی۔ مانہ کہ مولانا فضل الرحمٰن، عمران خان اور بلاول بھٹو سے لیکر وزیراعظم شہباز شریف تک تمام لیڈروں اور سیاستدانوں کا مقصد، منزل اور مسئلہ اقتدار، حکومت اور کرسی ہے لیکن معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کا مسئلہ نہ اقتدار ہے نہ حکومت اور نہ ہی کوئی کرسی۔

عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہی مہنگائی، غربت اور بیروزگاری ہے۔ یہ لیڈر اور سیاستدان ہمارے جیسے عام عوام کے نہ کوئی مامے ہیں اور نہ کوئی چاچے کہ ان کی آنے یا جانے کے لئے لوگ دعائیں کریں گے۔ لوگ ان سیاستدانوں و لیڈروں کو دعا اور بد دعا دینے کے لئے اپنے ہاتھ تب اٹھاتے ہیں جب یہ ان غریبوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتے ہیں یا پھر مہنگائی کے ہاتھوں مار کر دیوار سے لگا دیتے ہیں۔ کپتان سے بھی تو کسی کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔

اس ملک کے لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ کپتان کو پسند کرتے تھے لیکن جب اسی کپتان نے آٹا، چینی، گھی اور دالیں مہنگا کر کے عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کی تو پھر کپتان کو پسند کرنے والے انہی غریبوں کے ہاتھ بھی کپتان کو بد دعائیں دینے کے لئے اٹھے۔ لوگ محض تین ساڑھے تین سال بعد عمرانی حکومت سے نجات کی دعائیں صرف اس لئے مانگ رہے تھے کہ کپتان کی حکمرانی میں لوگوں کا جینا مشکل ہوگیا تھا۔ کپتان کو اپنے اقتدار اور کرسی کی فکر تو تھی لیکن سات سو سے سترہ سو روپے تک پہنچنے والے آٹے کے بیس کلو تھیلے کا کوئی خیال نہیں تھا۔

کپتان کو اپنے بارے میں عوام سے میٹھی میٹھی باتیں سننے کا شوق تو تھا لیکن عوام کو مٹھاس دینے والی چینی کی کڑواہٹ تک پہنچنے کا کوئی احساس نہیں تھا۔ کپتان ہر بات میں تڑکا تو لگاتے تھے لیکن غریبوں کے تڑکے والے گھی کے ساتھ اس کی حکومت میں جو کچھ ہوا وہ ایک غریب ہی جانتا ہے۔ مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق غریب پھر عمرانی حکومت سے نجات کی دعائیں نہ مانگتے تو اور کیا مانگتے؟ مولانا اور ان کے مرید بھی کپتان کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں اللہ خیر کرے آگے ان کا کیا انجام ہوگا؟

مولانا سے لیکر مریدوں تک اقتدار اور کرسی کی فکر سب کو ہے لیکن غریب کیسے اور کس طرح جی رہے ہیں یہ خیال اور فکر کسی کو نہیں۔ جب سے ملک میں پی ڈی ایم کی حکومت آئی ہے تب سے مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آٹا، چینی، چاول، گھی سمیت اشیائے ضروریہ کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ہوا میں اڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ کسی چیز میں کوئی استحکام نہیں۔ پانچ، چھ مہینے پہلے آٹے کا بیس کلو تھیلا جو سترہ، اٹھارہ سو روپے میں بکتا تھا اب اس کی قیمت محض پانچ، چھ مہینوں میں اٹھائیس سو تک پہنچ گئی ہے۔

دو سو بیس سے دو سو پچاس روپے میں ایک کلو ملنے والی مرغی نے چند دنوں میں چار سو کا ہندسہ بھی کراس کر دیا ہے اور اگر یہی حالت رہی تو شائد کہ ہزار کا ہندسہ بھی عبور کرنا اس کے لئے کوئی مشکل نہ ہو۔ جہاں مہنگائی کا یہ عالم اور لوگوں کو آٹا، چینی، دال، گھی اور چاول کے لالے پڑے ہوں وہاں لوگوں کے ہاتھ حکمرانوں سے نجات کی دعائیں مانگنے کے لئے نہیں اٹھیں گے تو اور کس چیز کے لئے پھر اٹھیں گے؟

مانہ کہ پی ڈی ایم والوں کا امام کامل پیر اور مرشد ہوگا، مولانا جی کی دعاؤں کا اثر بھی بہت ہوگا لیکن ایک بات یاد رکھیں جب بائیس کروڑ ہاتھ بد دعا کے لئے اٹھتے ہیں تو پھر ان کے سامنے کسی سیاسی پیر اور مرشد کی دعا کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ ہم نے ایک نہیں کئی سیاسی مرشدوں کو مظلوم عوام کی بددعاؤں کے سامنے ڈھیر ہوتے دیکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ غریبوں کی آہ اور بد دعا سے پی ڈی ایم حکومت کی بھی الٹی گنتی شروع ہو جائے مرشد اور مرید دونوں کو اقتدار کے لئے دعائیں مانگنے کے ساتھ عوام کو مہنگائی سے فوری ریلیف دینے کے لئے دواؤں کا سلسلہ بھی شروع کر دینا چاہئیے۔

مولانا اور مرید اگر مہنگائی کے خلاف اور کچھ نہیں کر سکتے کم از کم سرکار کی سرپرستی میں ایک مارچ تو کر دیں تاکہ پتہ چلے کہ پی ڈی ایم والے آج بھی مہنگائی کے خلاف ہیں اور یہ ایک تاریخی مارچ ہوگا کیونکہ اس میں صرف مولانا اور مرید ہی نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ نہیں تو مہنگائی کا یہ ہار کل کو لوگوں نے کسی کپتان اور کھلاڑی نہیں مولانا اور ان کے مریدوں کے گلے میں ہی ڈالنا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari