Kaptan Ko Iqtidar Chahiye
کپتان کو اقتدار چاہئے
گاؤں میں ہم دوستوں کی بیٹھک یامجلس لگی ہوئی تھی بچپن اورپچپن والی باتیں جب بہت ہوئیں تواچانک باتوں کارخ سیاست اورسیاستدانوں کی طرف مڑ گیا، یہ پی ٹی آئی والے پہلے کہیں اکادکا ہوتے تھے لیکن اب شہروں کے ساتھ گاؤں اور دیہات میں بھی ان کی اچھی خاصی فصل تیارہوگئی ہے۔ جہاں آپ کودوسری سیاسی پارٹیوں کے چارپانچ کارکن ملیں گے وہاں اگرپی ٹی آئی کے تین کارکن نہ ہوں تودولازمی ہوں گے۔ اس مجلس اوربیٹھک میں بھی کپتان کے کھلاڑی اورتحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک خاص تعداد موجود تھی۔
ہمارے کئی دوست جوچندسال پہلے تک اچھے خاصے نیک شریف اورپڑھے لکھے تھے وہ بھی اب کپتان کے اندھے مقلدبن گئے ہیں۔ اندھے مقلداس لئے کہ جاہل اورلاعلم یوتھیوں کی طرح اب وہ بھی کپتان کی ایمانداری اورحب الوطنی سے ہٹ کرکوئی بات سننانہیں چاہتے۔ یہ توسب کوپتہ ہے کہ کپتان کے کھلاڑیوں کی بات کپتان کی ایمانداری سے شروع ہوکرکپتان کی ایمانداری پرہی ختم ہوتی ہے۔
آپ بے شک انہیں فرح گوگی کے قصے سنائیں یاتوشہ خانہ کی کہانیاں، ان کی ایک ہی بات اور ایک ہی جواب ہوتاہے کہ ہماراکپتان ایماندار ہے۔ اس مجلس اوربیٹھک میں بھی بات کپتان کی ایمانداری سے شروع ہوئی۔ مجلس میں بیٹھے ایک دوست نے جب دیکھاکہ اب ایمانداری کے ہی چرچے اورچرخے ہونگے توانہوں نے فوراً باآواز بلندکہاکہ بھائیو اور دوستو کوئی شورشرابہ نہ کرناان یوتھیوں کے کپتان واقعی یاسراستادجیسے ایماندار ہیں۔
آپ کوبتاتے چلیں یاسراستادہمارے قریبی رشتہ دارہیں اورگاؤں میں لگی ہرمجلس، محفل اور بیٹھک کی وہ جان بھی ہوتے ہیں اورشان بھی لیکن اس دن کسی سیٹھ کوگھمانے پھرانے کی وجہ سے گاؤں سے باہرشہرگئے ہوئے تھے اس وجہ سے وہ وہاں موجودنہیں تھے۔
یاسر استادکانام لینے والے دوست سے ہم نے حیرانگی کالبادہ اوڑھتے ہوئے استفسار کیا کہ یاسراستادوالی بات کاکیامطلب؟ تووہ بچپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے کہ ایک بارہم چارپانچ دوست ہائی سکول کے گراؤنڈمیں کرکٹ کھیلنے کے بعدواپس آرہے تھے کہ زبیر گلالا کا گھر جو راستے میں آرہاتھااس گھرکے آگے مالٹے لگے ہوئے تھے اوراس وقت اس میں بڑے بڑے مالٹے تھے ہم دودوست مالٹے اتارنے کے لئے آگے ہوئے توپیچھے سے یاسراستادنے ہمیں پکڑکرکہاکہ دوسروں کے مالٹے اتارنایہ چوری اورگناہ ہے ایسانہیں کرنا۔
وہ کہہ رہاتھاخیراس دن توہم نے مالٹے نہیں اتارے لیکن اگلے دن یاسر استاد کو چھوڑ کر ہم انہی دوستوں نے اس مالٹے سے کچھ مالٹے اتارے جس میں ایک دودانے یاسر استاد نے بھی کھائے۔ کہتے ہیں وہ مالٹے کھانے کے بعدیاسراستادہمیں کہنے لگے کہ بڑے میٹھے مالٹے تھے جائیں اورلائیں۔ جواب میں ہم نے کہاکہ وہ زبیرگلالاکے مالٹے ہیں اوروہ حرام ہیں۔ کہتے ہیں کہ یاسراستادکہنے لگے کہ زبیر گلالا کے ہیں یا ابوذر لالا کے۔ حلال ہیں یا حرام۔ جیسے بھی ہیں آپ میرے لئے وہ مالٹے لائیں۔ یہی حال ان کے محترم کپتان صاحب کابھی ہے۔ جس طرح اس وقت یاسر استاد کو وہ مالٹے چاہئے تھے اسی طرح ان کے کپتان کو حکومت واقتدار چاہئے۔
ویسے توکپتان یاسر استادکی طرح بڑے ایماندار اور اصول پرست بنتے ہیں لیکن جب اپنی واری آتی ہے توپھرکپتان ایمانداری، اصول، شرافت، امانت اوردیانت سمیت سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ چندحلقوں میں دھاندلی کابہانہ کرکے کپتان نے پوراآسمان سر پر اٹھایا لیکن جب 2018کے الیکشن میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ دھاندلا ہوا تو پھر کپتان کی مبارک اور ایماندارانہ زبان سے کسی نے دھاندلی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں سنا۔
یاسراستادکی طرح کپتان نے جب سے حکومت واقتدار کا ذائقہ ومزہ چکھاہے تب سے کپتان اٹھتے بیٹھتے اورسوتے جاگتے ایک ہی بات، ڈیمانڈ اور فرمائش کر رہے ہیں کہ حلال ہو یا حرام، دھاندلا ہو یا دھاندلی۔ بس مجھے حکومت واقتدار چاہئے۔ یہ تواس محفل، مجلس اوربیٹھک میں ایک دوست کی مزاحیہ سیاسی گفتگوتھی لیکن اگرغورسے دیکھاجائے توواقعی کپتان کی موجودہ حالت یاایمانداری یاسراستادکی ایمانداری سے الگ ومختلف نہیں۔
کپتان جس چیزکوایک دن حرام اورگناہ قراردیتے ہیں دوسرے دن وہ پھر اپنے لئے خوداس حرام اورگناہ کاانتخاب کرتے ہیں۔ یہ پوری دنیا جانتی ہے کہ عمران خان سیاست میں حکومت واقتدارتک پہنچنے کے لئے کسی کندھے اورسہارے کے استعمال کوجرم اورگناہ کا درجہ دیتے تھے لیکن جب اپنی باری آئی تو پھر کپتان نے اقتدارکے لئے دوسروں کے کندھے استعمال اور سہارے لینے سے ذرا بھی دریغ نہیں کیا۔
کرپٹ، چوراورڈاکوؤں کوپارٹی میں لینااورانہیں ٹکٹ دینایہ بھی کپتان کے نزدیک ایک قسم کاکفرتھالیکن پھرسب نے دیکھاکہ یوتھیوں کے اس ایماندارنے فقط اقتدارکی خاطرنہ صرف کرپٹ، چور اور ڈاکوؤں بلکہ ملک کے چھوٹے بڑے اکثر لوٹوں اورلٹیروں کواپنے دامن میں چھپا لیا۔ کپتان کی ساڑھے تین چار سالہ حکمرانی سے ملک کابیڑا غرق ہو چکا ہے، اب تک لوگ جگہ پرواپس نہیں آئے ہیں۔
آج بھی لوگ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے رو رہے ہیں لیکن کپتان کوملک کی تباہ حال معیشت، بڑھتی مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سمیت عوام کے کسی مسئلے اورپریشانی کی ذرا بھی نہ توکوئی پروا ہے اورنہ کوئی فکر۔ کپتان کی بس ایک ہی خواہش، ارمان، فرمان اورایک ہی ڈیمانڈ ہے کہ جس طرح بھی ہوبس مجھے اقتدار دلایا جائے۔ معاشی طور پر ملک کادیوالیہ ہوتاہے توایک نہیں سوبار ہو، لوگ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے باعث ایڑھیاں رگڑرگڑکرمررہے ہوں توایک نہیں ہزار بار مریں، انتخابات پر ملک وقوم کا کباڑا ہوتا ہو تو ہزار نہیں دوہزار بار ہو۔ اس سے کپتان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ کپتان کو تو بس حکومت اور اقتدار چاہئے۔
تحریک انصاف کے عقل وشعورسے کورے کارکن اور خان کے نادان کھلاڑی کہیں یہ سمجھ رہے ہیں کہ کپتان ملک وقوم کی جنگ لڑرہے ہیں لیکن حقیقت میں کپتان کواقتدارکی جنگ لڑنے سے فرصت نہیں۔ کپتان کواقتدارکی گلی سے نکلتے ہوئے سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن اس ایک سال میں کپتان نے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج، مارچ، دھرنا اور جلوس تو دور کوئی جلسہ بھی نہیں کیا۔
کپتان کی رٹ کل بھی انتخابات کی تھی اورکپتان کی زبان پرصدائیں آج بھی الیکشن کی ہیں۔ ملک کے معاشی حالات ٹھیک ہوں یا نہ، انتخابات کے لئے خزانے میں پیسہ ہو یا نہ، حالات الیکشن کے لئے سازگار ہوں یانہ، صاف وشفاف انتخابات کی تیاریاں ہوں یانہ لیکن پھربھی کل نہیں آج ہی ملک میں انتخابات ہونے چاہئیں کیونکہ عمران خان کواقتدارچاہئے۔