Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umar Khan Jozvi
  4. Kaptan Ke Hathon PTI Ka Janaza

Kaptan Ke Hathon PTI Ka Janaza

کپتان کے ہاتھوں پی ٹی آئی کا جنازہ

ہمارے ایک استاد تھے قاری محمد حسن، اب فوت ہو گئے ہیں۔ اللہ ان کی قبر پر کروڑں رحمتیں نازل فرمائے، آمین۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ جو، میں، ہے یہ انسان کو تباہ کرکے چھوڑتا ہے، ہمیں آج بھی یاد پڑ رہا ہے کہ قاری صاحب نے، میں، کی تباہی والا یہ سبق ہمیں ایک، دو نہیں بلکہ کئی بار پڑھایا اور سمجھایا پر اس وقت چونکہ ہم چھوٹے تھے اس وجہ سے اس کو زیادہ اور بہتر انداز میں سمجھ نہیں سکے۔

لیکن آج زمان پارک کے اجڑے چمن اور اس کے مالک کی تباہی نے ہمیں اس سبق کا نہ صرف مطلب بلکہ مفہوم بھی سمجھا دیا ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے کپتان کا کبھی یہ انجام بھی ہوگا۔ ایک دنیا کپتان کی گرویدہ تھی، کپتان جہاں جاتے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ امڈ آتے لیکن ایک، میں، کی وجہ سے وہی کپتان آج تنہاء بالکل تنہاء ہو کر رہ گئے ہیں۔ سامنے ہر وقت لاکھوں کا مجمع، آس پاس ہزاروں لوگ، ہواؤں اور فضاؤں میں اپنے نعرے اور شان و شوکت دیکھ کر کپتان یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اس زمین پر کہیں انسان صرف، میں، ہی ہوں۔

میں، کی محبت میں کپتان اتنے گرفتار ہوئے کہ وہ دنیا کے اکثر اصول، قاعدے اور قوانین بھی پھر بھول گئے۔ کپتان کو پھر یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اس دنیا میں رہنے اور زندگی گزارنے کے بھی کوئی اصول اور ضابطے ہیں۔ کپتان تو کہیں یہ سمجھ رہے تھے کہ دنیا، میں، سے شروع ہو کر، میں، پر ختم ہوتی ہے لیکن ان کو یہ نہیں پتہ تھا کہ اس دنیا میں، میں، سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ وہی بہت کچھ جن سے اب وہ گزرنے لگے ہیں۔

بڑے بول یہ تو اللہ کو بھی پسند نہیں، فرعون بھی میں میں کر رہا تھا پھر کیا انجام ہوا؟ اس کا وہ پانچ چھ فٹ، میں، والا ڈھانچہ تو آج بھی اہل دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنا ہوا ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ اس، میں، میں، میں ہوئے لیکن افسوس لوگ پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ زمان پارک کے اجڑے چمن اور اس کے مالک کی تباہی میں کیا دنیا والوں کے لئے عبرت اور نشانیاں نہیں؟ وہ جس کپتان کے پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے آج وہ سیاسی زمین پر چلنے کے قابل بھی نہیں۔

میں، کا جامہ پہن کر فرعون کے لہجے میں وہ جو بول بول رہے تھے میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ اللہ کی قدرت دیکھیں اب انہیں اپنے چھوڑنے کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ کل تک جو فرما رہے تھے کہ تحریک انصاف کے علاوہ سارے سیاسی چور اور ڈاکو ہیں اور میں چور و ڈاکوؤں سے بات و مذاکرات نہیں کرتا اب وہ خود دہائیاں دے رہے ہیں کہ کوئی آئے اور مجھ سے بات و مذاکرات کریں۔ وقت اتنی تیزی کے ساتھ بدل جائے گا کسی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

وہ کپتان جس کے ارد گرد شہد کی مکھیوں کی طرح ہر وقت پارٹی رہنماؤں و کارکنوں کی لائنیں لگی رہتی تھیں آج اسی کپتان کی ضمانت دینے کے لئے بندے کیا؟ ایک بندہ بھی نہیں۔ فواد چوہدری، اسد عمر، شیریں مزاری، ملیکہ بخاری سمیت اکثر و بیشتر پی ٹی آئی کے سابق ایم این ایز، ایم پی ایز اور ٹکٹ ہولڈر ایک ایک کرکے بادشاہ سلامت کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں جو اکا دکا بچے ہیں وہ بھی اڑان بھرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ زمان پارک جہاں روز شاہی دربار لگا کرتا تھا اور رات گئے تک، میں، میں، کی بولیاں بولی اور گن گائے جاتے تھے اب اسی زمان پارک میں نہ کوئی دھن ہے اور نہ کوئی تن۔

ایک ہی، میں، ہے جو ہچکیوں پر ہچکیاں لیکر کپتان کو صبح و شام شرمندہ کر رہا ہے۔ انسان واقعی کمزور بہت کمزور ہے۔ وہ بھی تو ایک وقت تھا جب نہ صرف زمان پارک بلکہ بنی گالہ کی وادیوں اور پہاڑوں میں بھی، میں، ہی، میں، بولا کرتا تھا۔ اب بنی گالہ سے لیکر زمان پارک تک ہر طرف خوف، دہشت، مایوسی، ناامیدی اور ایک خاموشی سی ہے۔ زمان پارک و بنی گالہ کی وہ جو رونقیں تھیں جن کو دیکھ کر رات کی تاریکیوں میں بھی دن کا گمان ہوتا تھا اب وہاں دن کی روشنیوں میں بھی رات۔ ہاں۔ اندھیری رات کا گمان نہیں یقین سا ہونے لگتا ہے۔

کپتان کی ایک، میں، نے سب کچھ جل کر خاکستر کر دیا ہے۔ بائیس سالہ سیاسی جدوجہد پر، میں، کی ایسی مار پڑ گئی ہے کہ اب تحریک انصاف کو سر اٹھانے کے لئے بھی سال نہیں صدیاں درکار ہونگی۔ قافلہ لٹ چکا، ساتھی تتربتر ہو چکے ہیں، وہ جو امیدوں کی مدہم سی روشنیاں باقی تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ بجھ گئی ہیں یا بجھنے کے قریب ہیں۔ کرائے پر لائے گئے لوگ اپنے خیمے اور ترپال اٹھا کر پارٹی چھوڑ چکے ہیں، نظریاتی کارکنوں کو بھی اب کسی نئے نظریے کی تلاش ہے۔

پیچھے مڑ کر دیکھیں تو کپتان، لاکھوں کارکن، کروڑوں فین، شان بھی اور شوکت بھی لیکن آگے؟ آگے اب ایک اندھیرا ہی ہے۔ وہ اندھیرا جس سے کپتان کے لئے نکلنا اب اگر ناممکن نہیں تو مشکل بہت مشکل ضرور ہے۔ سیاسی الفاظ میں کپتان نے نہ صرف اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی ماری ہے بلکہ اپنے ہاتھوں سیاسی قبر بھی کھود دی ہے۔ اس شان سے پی ٹی آئی وجود میں نہیں آئی تھی جس شان سے عمران خان نے اپنی ضد، اناء اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تحریک انصاف کا سیاسی جنازہ نکال دیا ہے۔

عمران خان سیاست میں ضد، اناء، تکبر، غرور اور انتقام کے بت کھڑے نہ کرتے تو آج سیاسی مخالفین بھی پی ٹی آئی کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے کے نعروں پر نہ جھومتے۔ آپ جو بھی سمجھیں لیکن ہمارے قریب تو یہ مکافات عمل ہے۔ انسان جو بوتا ہے وہی تو پھر کاٹتا ہے۔ انسان کے اعمال و افعال پر آخرت میں جزا و سزا وہ تو ہے ہی پر ان اعمال و افعال کا دنیا ہی کے اندر گھوم پھر کر واپس جھولی میں آ کے گرنا یہ بھی تو ثابت ہے۔

اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ آپ نے ایسا کوئی شخص دیکھا جس نے اچھا یا برا کوئی کام کیا ہو اور دنیا کے اندر اس کو اس کا بدلہ نہ ملا ہو۔ دنیا کا یہ بدلہ یہ آخرت والے بدلے سے الگ ہے۔ اچھے کاموں کے کچھ بدلے پھر بھی مؤخر ہو جاتے ہیں جن کا پھر آخرت میں ڈبل و ٹرپل اجر و ثواب ملے گا لیکن برے کاموں، ظلم و گناہ کے دنیاوی بدلے مؤخر نہیں ہوتے بلکہ یہ تو دنیا میں ملکر ہی رہتے ہیں۔

پھر تکبر و غرور کا سر تو کبھی اونچا رہا نہیں ہے۔ حد سے زیادہ خوش فہمی، خوش پسندی، تکبر اور غرور نے نہ صرف عمران خان بلکہ نوجوانوں کی ایک مقبول سیاسی جماعت کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ اب پی ٹی آئی پر جان نچھاور کرنے والے جنونی نوجوان بھی تحریک انصاف کا نام لیتے ہوئے کترا رہے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ۔ لیکن سچ اور حقیقت یہی ہے کہ ایک اناء پرست کپتان نے نہ صرف اپنی ٹیم بلکہ پارٹی کا جنازہ بھی نکال دیا ہے۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza