Kaptan Bhi Emandar Na Rahe
کپتان بھی ایماندارنہ رہے
سنا ہے خود کو ملک کے سب سے بڑے ایماندار اور دیانتدار سمجھنے اور گرداننے والے عمران خان بھی اب ایماندار نہیں رہے۔ کل تک سابق وزیراعظم نواز شریف، آصف علی زرداری اور دیگر نامی گرامی سیاستدانوں اور لیڈروں کو سرٹیفائیڈ چور اور ڈاکو کہنے والے کپتان کو بھی الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں کرپٹ پریکٹس کا سرٹیفکیٹ جاری کر کے نااہل قرار دے دیا ہے۔
ہم پہلے ہی کہتے رہے کہ تکبر و غرور کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا لیکن افسوس کپتان تکبر، غرور، انا پرستی اور خود پسندی کے دریا میں ایسے غوطہ زن ہو گئے تھے کہ جس کا انجام آج نہیں تو کل لازمی یہی ہونا ہی تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا بھی کبھی ہو گا۔ کل تک چوکوں، چوراہوں، جلسے جلوسوں، گلیوں اور محلوں میں اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے جو کپتان دوسروں کو چور اور ڈاکو کہہ کر پکارتے تھے آج وہی کپتان اپنے ماتھے پر کرپٹ پریکٹس کا داغ اور ہاتھوں میں نااہلی والا سرٹیفکیٹ لئے دنیاکے سامنے تماشا بن چکے ہیں۔
لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ دوسروں کو تماشا بنانے والے ایک نہ ایک دن پھر ضرور تماشا بنتے ہیں۔ ایمانداری سے کرپٹ پریکٹس تک تیزی سے چلنے والا یہ منظر اور سفر دیکھ کر مجھے اشفاق صاحب کے دلوں میں اترنے والے وہ الفاظ یاد آنے لگتے ہیں۔ اشفاق صاحب کے الفاظ اور باتوں پر اگر گہرائی سے غور کیا جائے تو اس میں پڑھنے والوں کے لئے بہت کچھ ہے۔
ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک بار اپنے بابا جی کو بہت ہی فخر سے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے۔ اس کے علاوہ میرے بچے اچھے انگریزی سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے، اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔ میری یہ بات سننی تھی کہ انہوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لئے ہوا کہ تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔
میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔ تو بابا جی نے کہا "اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے سے خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بنا محنت کئے اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔
ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ حسب معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے۔ اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی۔ مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا دیا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا۔ اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا، کبھی بائیں۔ کبھی شمال، کبھی جنوب۔
سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اُسکا پیٹ بھی نہیں بھرا۔ "بابا دین محمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا" بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟"میں نے فٹ سے جواب دیا" نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا، نہ ذلیل ہوتا۔ "بابا بولا: بالکل ٹھیک، یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساس برتری کی ٹھونگیں مارو گے، تو اللہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔
تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں، ربّ نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ " بابا عجیب سی ترنگ میں بولا، "پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا، ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو معاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو، اب بندوں کی محبت کے ساتھ ساتھ شُکر کے آنسو بھی اپنی منزل میں شامل کر لو، تو امر ہو جاؤ گے۔ "
یہ کہہ کر بابا دین محمد تیزی سے مین گیٹ سے باہر نکل گیا اور میں سر جھکائے زار و قطار رو رہا تھا اور دل ہی دل میں ربّ العزت کا شکر ادا کر رہا تھا کہ بابا دین محمد نے مجھے کامیابی کا راز بتا دیا تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان تو تکبر و غرور کے سمندر میں غرق ہو کر یہ سمجھ رہے تھے کہ کامیابی اور کامرانی کہیں نواز شریف کو چور، زرداری کو ڈاکو، مولانا کو ڈیزل اور سیاسی و غیر سیاسی ہر مخالف سمت میں چلنے والے انسان کو ٹھونگیں مارنے میں ہے۔
لیکن اس کو یہ نہیں پتہ تھا کہ دوسروں کو ٹھونگیں مارنے والے پھر نہ صرف مارے مارے پھرتے ہیں بلکہ دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا بھی ہوتے ہیں۔ توشہ خانہ جیسے ریفرنس میں کپتان کی نااہلی یہ اللہ کی پکڑ نہیں تو اور کیا ہے؟ شہباز گل فرماتے ہیں کہ کپتان کی ایک کال و آواز پر لوگ لاکھوں اور کروڑوں نہیں اربوں روپے نچھاور کرتے ہیں۔ صرف دو تین سو والی شرٹ ہی کپتان کے ایک آٹو گراف کی وجہ سے پھر کروڑوں میں بکتی ہے۔
جس کپتان کی ایک آواز اور کال پر لوگ اربوں روپے نچھاور کرتے ہوں اس کپتان کا توشہ خانہ سے توشے اٹھانا یہ عبرت اور سبق سے ہرگز خالی نہیں۔ صادق اور امین کے تمغے اپنے سینے پر سجانے والے کے ماتھے پر اچانک کرپٹ پریکٹس اور توشہ خانہ کے ان داغوں میں اہل عقل کے لئے ایک دو نہیں کئی بڑی نشانیاں ہیں۔ ہر غیب، کسر، کمی اور خامی سے پاک تو فقط ایک اللہ کی ذات ہے۔ باقی یہ انسان چاہے وہ عمران خان ہی کیوں نہ ہو یہ سب کے سب کسی نہ کسی لحاظ سے کمزور بھی ہیں اور گناہ گار بھی۔
اس لئے ہزار کمیوں اور خامیوں کے باوجود جو انسان عمران خان کی طرح سینہ چوڑا کر کے کہتے ہیں کہ اس مٹی پر ان سے بڑے ایماندار اور امانتدار کوئی نہیں تو تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ توشہ خانوں اور قومی خزانوں کا گمشدہ میراث پھر اکثر ایسے ہی ایماندار اور دیانتدار انسانوں کے گلے پڑتا ہے۔ توشہ خانہ ریفرنس کیا ہے؟ اس تکبر، غرور اور خود پسندی کا انجام۔ جس کے نشے میں مدہوش ہو کر عمران خان یہ بھی بھول گئے تھے کہ وہ بھی نواز شریف اور آصف علی زرداری کی طرح کوئی انسان ہیں۔
ہواؤں کارخ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، پھر یہ تو دنیا کا قانون ہے کہ جیسا کرو گے ویسا پھر بھرو گے۔ کل تک عمران خان اور اس کے کھلاڑی نواز شریف کو چور اور زرداری کو ڈاکو کہتے تھے۔ اب نواز شریف، زرداری اور مسلم لیگ ن و پیپلز پارٹی کے کارکن عمران خان کو چور و ڈاکو کہیں گے۔ شائد کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے کچھ غلط نہ لیا ہو اور شائد کہ توشہ خانہ ریفرنس کا چوری سے دور دور تک کوئی واسطہ اور رشتہ نہ ہو لیکن کپتان کو الیکشن کمیشن سے کرپٹ پریکٹس کا جو سرٹیفکیٹ مل گیا ہے اس کا داغ اب آسانی کے ساتھ دھویا نہیں جا سکے گا۔