Kachay Ke Daku
کچے کے ڈاکو
خالد، زعفران اور مومن ان تینوں نوجوانوں کا تعلق میرے آبائی ضلع بٹگرام سے ہے۔ بٹگرام یہ خیبرپختونخوا کا ایک پسماندہ ضلع ہے اور یہاں کے اکثر لوگ محنت مزدوری کرکے زندگی کا نظام چلاتے ہیں۔ یہ تینوں نوجوان بھی بٹگرام شہر میں ٹیکسی گاڑیاں چلاتے تھے جس سے ان کے گھروں کے چولہے جلتے تھے۔ سستی گاڑی کی تلاش میں یہ تینوں نوجوان بقر عید سے کچھ دن پہلے بٹگرام سے نکلے اور یہ وہاں پہنچے جہاں سے پھر ایسے غریبوں کی صرف نعشیں اورلاشیں ہی واپس آتی ہیں۔
گاڑی کے سلسلے میں ان کاپہلا رابطہ جس شخص سے ہوا انہوں نے ان کو صادق آباد رحیم یارخان پہنچنے کا کہا۔ وہ شخص گاڑیوں کاکوئی ڈیلر نہیں بلکہ کچے کے ڈاکوؤں کاکوئی پکا اور ٹکا کارندہ تھا۔ ساری زندگی سادگی کے سائے میں گزارنے والے ان نوجوانوں کو کیا پتہ تھا کہ اس ملک میں پکے کے چوروں کے ساتھ کچے کے ڈاکوبھی بستے اور رہتے ہیں۔ یہ نوجوان جس ضلع اور علاقے میں رہتے ہیں سہولیات کے حوالے سے یہ ضلع پسماندہ ضرور ہے لیکن انسانیت کے لحاظ میں یہ ترقی یافتہ اضلاع اور علاقوں سے بھی آگے بہت آگے ہے۔ اغواء اورتاوان یہ تودور کی باتیں ہیں یہاں تو مرغی کوپتھر مارنے پربھی آسمان سر پر اٹھا دیا جاتا ہے، پھرمہمان وہ تواس ضلع میں حکمران ہوتے ہیں، مجھے نہیں یاد کہ یہاں آج تک کسی مہمان کے ساتھ کوئی چھوٹاساواقعہ بھی پیش آیاہو۔
جن جوانوں کی زندگیاں ایسے علاقے اورضلع میں گزری ہوں ان کو کیا معلوم کہ صادق آباد کی گنے والی فصلوں اور کچے کے جنگلوں میں مہمانوں اور انسانوں کے ساتھ کیاہوتاہے؟ انجام سے بے خبریہ تینوں نوجوان جیبوں میں لاکھوں روپے ڈال کر کراچی جانے والی گاڑی میں ایک دن کا سفر کرکے اگلے روز علی الصبح صادق آباد پہنچ گئے۔ صادق آباد پہنچ کر انہوں نے اس ڈیلر سے رابطہ کیا تو اس نے میلوں دور سے آنے والے ان مہمانوں کے استقبال اور ان کومنزل تک پہنچانے کے لئے دو موٹر سائیکلوں پر اپنے بندے بھیج دیئے۔
یہ تینوں نوجوان کہتے ہیں کہ موٹرسائیکل پردس پندرہ منٹ سفرکے بعد ہم گنے کی فصل میں تھے اور ہمارے سروں پرپانچ دس مسلح افراد بندوقیں تان کر کھڑے تھے۔ موٹرسائیکل سے اتارتے ہوئے انہوں نے سب سے پہلے ہماری تلاشی لی اور جو کچھ ہمارے پاس تھاوہ ہم تینوں سے لے لیا۔ پیسے اور موبائل لینے کے بعدہم نے ان کوکہا کہ پیسے اور موبائل توآپ نے لے لئے ہیں اب ہمیں چھوڑ دیں لیکن انہوں نے ہمیں نہیں چھوڑا۔ شام تک ہمیں ادھرہی رکھا اس کے بعد موٹر سائیکلوں پر سوار کرکے ایک دریانماندی کے کنارے لیکر گئے جہاں ہمیں ایک دوسرے گروپ کے حوالے کیاگیا۔
وہاں سے موٹرسائیکل سوارمسلح افراد ہمیں کھیتوں، جنگلوں اور پہاڑوں میں آگے لیکر جاتے رہے کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد وہاں دوبارہ ایک دریانماندی آئی جہاں اس گروپ نے ہمیں ایک تیسرے گروپ کے حوالے کیا اور یوں ہم کچے کے ڈاکوؤں کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گئے۔ ان ڈاکوؤں کے ہاتھ اتنے مضبوط اور محفوظ تھے کہ وہاں مچھر پر بھی نہیں ہلاسکتا تھا۔ ہمیں جھاڑیوں میں درختوں کے نیچے چارپائیوں پر زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا گیا اور پھر کئی دن تک ہم اسی حال میں رہے۔ کچے والے ڈاکوؤں نے ہمارے موبائل کے ذریعے ہمارے رشتہ داروں سے رابطہ کرکے ڈھائی کروڑ تاوان کا مطالبہ کیا بصورت دیگر ہم تینوں کوجان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔
یہ نوجوان کہتے ہیں کہ ہم نے ادھر گزرے دنوں میں ہرلمحہ اور ہر سیکنڈ موت کوسامنے اور بہت قریب سے دیکھا۔ پہلے رابطے کے بعد ہمارے نمبر بند کرکے وہ پھرصرف واٹس ایپ، مسینجر اور انسٹاگرام استعمال کرتے رہے۔ وہاں ہماری طرح اور بھی بہت سے لوگ زنجیروں میں جھکڑے ہوئے تھے۔ ایک کو ہمارے سامنے تاوان وصول کرتے ہوئے چھوڑاگیا۔ یہ نوجوان سات آٹھ دن تک زنجیروں میں جھکڑے کچے میں رہے۔
بٹگرام بھر میں ان نوجوانوں کی بازیابی کے لئے دعاؤں کے ساتھ کئی علاقوں کی مساجد میں تاوان کی رقم پورا کرنے کے لئے چندے بھی ہوئے جن میں خواتین نے اپنے زیورات اور بچوں وجوانوں نے پاکٹ منی تک دی۔ ان کی بازیابی کے لئے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر، بٹگرام کے ایم این اے پرنس نواز خان اور راجن پورکے ایم این اے سمیت اہم شخصیات نے بھی کلیدی کردار ادا کیا لیکن پھر بھی ان تینوں جوانوں کی جان خلاصی تب ہوئی جب کچے کے ڈاکوؤں کوستر اسی لاکھ روپے کے قریب تاوان ادا کیا گیا۔ پکے کے چور توپہلے سے عوام کوسرعام لوٹ رہے تھے لیکن کیااب عوام کچے کے ان ڈاکوؤں سے بھی اسی طرح سرعام لٹتے رہیں گے؟ کیاکچے کے یہ ڈاکوریاست سے زیادہ طاقت ورہے؟ جوانسانوں کومرغیوں کی طرح کہیں سے بھی اٹھاکرزنجیروں میں باندھتے رہیں گے؟
عوام کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نہ جانے اب تک کتنے جوان، بچے اور بوڑھے کچے کے ان ڈاکوؤں کے ہتھے لگ کرموت کی بھینٹ چڑھ گئے ہوں گے؟ نہ جانے کتنے انسان اب بھی کچے میں زنجیروں میں جھکڑ کر ایڑھیاں رگڑتے ہوں گے؟ گھرسے مرغی بھی غائب ہو تو گھر میں ماتم کاعالم ہوتاہے۔ جن گھروں سے ہٹے کٹے زندہ انسان کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغواء اور غائب ہوتے ہیں ان کے ماں باپ، بہن بھائیوں اوررشتہ داروں پرکیاگزرتی ہوگی؟ بٹگرام کے یہ تین نو جوان جوکئی دن تک کچے کے ڈاکوؤں کے قبضے میں رہے ان دنوں میں ان کے گھروالوں، رشتہ داروں اورعلاقے والوں پرکیاگزری ہوگی؟ ہربندے کے پاس کروڑوں کیا؟ لاکھوں کاتاوان بھی نہیں ہوتا۔
آج کے دور میں توہر شخص خودمشکل سے جی رہاہے، عوام کی اکثریت کودووقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے ایسے میں پکے کے چوروں کے ساتھ اب اگرکچے کے ڈاکوؤں کے خواب، ارمان اور خرچے بھی تاوان کی صورت میں عوام نے ہی پورے کرنے ہیں توپھر اس قوم کے ساتھ اس ملک کابھی اللہ ہی حافظ ہے۔ کچے کے ان ڈاکوؤں کے ہاتھوں عوام کااس طرح مرغیوں کی طرح اغواء اورغائب ہونایہ حکومت کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ حکومت جتنی جلدی ہوسکے کچے کوان ڈاکوؤں کا پکا قبرستان بنادیں ورنہ یہ ظالم پورے ملک کواغواء نستان بنادیں گے۔