Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umar Khan Jozvi
  4. Gaun Mein Chand Din

Gaun Mein Chand Din

گاؤں میں چنددن

گاؤں کو لوگ جنت اس لئے کہتے ہیں کہ گاؤں میں جسم کے ساتھ روح بھی خوش رہتی ہے۔ اب تو گاؤں اور دیہات پر بھی ترقی اور شہری ماحول کا کچھ زیادہ اثر ہوا ہے لیکن پھر بھی شہر کے مقابلے میں گاؤں آج بھی گاؤں ہے۔ تازہ آب و ہوا، میٹھے چشمے، دلکش پہاڑ، سبز کھیت اور کانٹوں میں کھلکھلاتے پھول یہی تو گاؤں و دیہات کا حسن ہے۔ شہروں میں تو گاڑیوں کے شور و غوغا، ٹینشن پریشانی اور آلودگی سے ہر وقت واسطہ پڑا رہتا ہے مگر گاؤں میں ایسا نہیں ہوتا۔

مانا کہ شہر میں ملنے والی سہولیات گاؤں و دیہات میں نہیں ہوتی لیکن گاؤں و دیہات میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے سے جسم جس طرح تروتازہ ہوتا ہے اس طرح شہری سہولیات سے بھی کبھی نہیں ہوتا۔ شہروں جیسی سہولیات اگر گاؤں میں میسر ہوں پھر تو یہ گاؤں اور دیہات واقعی دنیا میں کسی جنت سے کم نہیں۔ کچھ دن پہلے جب شہر کے شور و غوغا، گاڑیوں کی ٹین ٹین اور آلودگی سے دل و دماغ اور جسم کچھ بھاری ہوا تو ہم اچانک گاؤں کے سفر پر نکل پڑے۔

ایبٹ آباد سے بٹگرام تک گاڑی میں پہلے تقریباً ڈھائی تین گھنٹے لگتے تھے، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ہزارہ کے عوام سے محبت، خلوص اور ہزارہ موٹروے کی برکت سے اب وہ ڈھائی تین گھنٹوں کا سفر ہزارہ موٹروے المعروف (سی پیک) پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔ مانسہرہ سے آگے سی پیک کی تعمیر میں بٹگرام، شانگلہ اور کوہستان کی عوام سے بڑا ہاتھ ہوا ہے لیکن اس میں میاں صاحب کا کوئی قصور نہیں کیونکہ نواز شریف نے تو ہزارہ موٹروے بنانے کا اعلان کیا تھا معلوم نہیں پھر مانسہرہ سے تھاکوٹ تک کس نے اسے موٹروے کا بچہ بنا دیا۔

سی پیک نامی موٹروے کے اس بچے پر اب تک کافی حادثات ہو چکے ہیں اور جب تک اس کو دوبارہ موٹروے طرز پر تعمیر نہیں کیا جاتا حال کے ساتھ مستقبل میں بھی اس شاہراہ پر حادثات کے خطرات موجود رہیں گے۔ ویسے اس سی پیک سے بھی بٹگرام، شانگلہ اور کوہستان تک کے عوام کو کافی فائدہ پہنچا ہے۔ جو سفر پہلے تین چار گھنٹوں میں طے ہوتا تھا وہ اب دو ڈھائی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ ہزارہ موٹروے جیسے ایسے ہی تاریخی منصوبوں اور کام کی وجہ سے تو لوگ آج بھی میاں نواز شریف کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔

نواز شریف کے بارے میں عمران خان جیسے لوگ چاہے جو بھی کہیں لیکن ایک بات کا کریڈٹ تو نواز شریف کو دینا ہی پڑے گا کہ انہوں نے لاہور اور اسلام آباد سمیت پورے ملک میں موٹرویز کا جال بچھا کر غریب عوام پر ایک بہت بڑا احسان کیا ہے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو اگر اقتدار اور سیاست سے الگ نہ کیا جاتا تو شائد کہ وہ گاؤں و دیہات تک بھی موٹروے کی سہولت پہنچا دیتے۔ اب تو گاؤں و دیہات کی سڑکیں سفر کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔

بٹگرام شہر سے ہمارے آبائی گاؤں تک اتنا سفر نہیں لیکن روڈ کی خستہ حالی کی وجہ سے اس سفر پر نہ صرف کافی ٹائم صرف ہو جاتا ہے بلکہ سر سے پاؤں تک ہاتھ، پاؤں، ہڈیوں اور پسلیوں کا جو حشر نشر ہوتا ہے وہ بیان کرنے سے بھی باہر ہے۔ ہمارے جیسے کمزور لوگ تو اس سڑک پر ایک بار سفر کر کے پھر مہینوں تک اپنی ہڈیوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ اس دن بھی بٹگرام سے گاؤں تک سفر میں یہی ہونا تھا یہ تو بھلا ہو برخوردار مشتاق ظاہر کا جو دوسرے راستے سے ہمیں لیکر گئے۔

پھر بھی گاؤں پہنچ کر ہم نے کچھ سکھ کا سانس لیا۔ اگلے دن بٹگرام شہر میں قائم بڑے دینی مدرسے جامعہ کوثر القرآن میں ختم بخاری شریف کی پررونق اور بابرکت محفل تھی جس کا ہمیں پہلے سے علم تھا۔ مانسہرہ میں برادرم مولانا قاضی محمد اسرائیل گڑنگی کے مدرسے میں منعقدہ ختم بخاری شریف کی محفل سے محرومی والے دکھ اور افسوس کو ہم بٹگرام کی سرزمین پر دہرانا نہیں چاہتے تھے اس لئے ہماری کوشش بھی تھی اور خواہش بھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس پروگرام میں شرکت کا شرف حاصل کر لیا جائے۔

اللہ بھلا کرے ڈاکٹر روح الامین اور رفیع اللہ مندری کا جو اس بابرکت محفل میں ہماری شرکت کا ذریعہ بنے۔ ان کے ہمراہ اس پروگرام میں شرکت کر کے ملک کے نامور علمائے کرام اور مشائخ عظام سے بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے اور استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اس پروگرام میں شرکت سے دل اس لئے بھی خوشی سے سرشار ہوا کہ اس جامعہ سے امسال سند فراغت حاصل کرنے والے خوش قسمت علماء و طلباء میں کئی ہمارے آبائی علاقے و یونین کونسل کے بھی تھے، پروگرام کے اختتام پر فرمان اللہ جو علاقے کی نامور شخصیت جہانگیر چھوٹار اجمیرہ کے صاحبزادے ہیں کی طرف سے ظہرانہ دیا گیا۔

شہر میں اگلے دن بھی مختلف دینی، سیاسی اور سماجی پروگرام تھے لیکن ہمارے باقی ایام گاؤں میں ہی مولانا پیر خالد قاسمی کے ہمراہ گزرے، پیر صاحب اس بار ہم پر کچھ زیادہ مہربان رہے، برادرم صدر الزمان خان بٹگرام کی سیاست میں جن کا ایک بڑا نام ہے اور علاقے کے اکثر مسائل و معاملات جو اپنے طور پر حل کراتے ہیں آخری روز واپسی پر ان سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ گاؤں میں اس بار بھی موبائل چارج نے بہت تنگ کیا کیونکہ گاؤں بلکہ پورے بٹگرام میں بجلی کا مسئلہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ جون جولائی میں تھا۔

ایک گھنٹے کے لئے بجلی آتی ہے پھر کئی کئی گھنٹوں تک بجلی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ گیس کی سہولت وہ تو مانسہرہ سے آگے ہے نہیں۔ بٹگرام کے لوگ آج بھی لکڑیاں جلانے یا پھر گھریلو سلنڈر استعمال کر کے گزارا چلانے پر مجبور ہیں۔ نواز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق مطلب ہر پارٹی اور لیڈر کے پروانے اور دیوانے ان گاؤں اور دیہات میں موجود ہیں۔ مستقبل کیا؟ اپنے حال تک کی ان کو کوئی فکر نہیں لیکن زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں یہ آپ کو ہر وقت مگن دکھائی دیں گے۔

موبائل اور سوشل میڈیا کا اتنا استعمال شہروں میں نہیں ہوتا ہوگا جتنا یہاں کے شہزادے سر جھکا کر دن رات کرتے ہیں۔ گاؤں میں رہنے والے ہر جوان کے پاس اور کچھ ہو یا نہ، موبائل ضرور ہوگا۔ جہاں کوئی سیاسی جلسہ یا جلسی ہو یہ شہزادے یا بھگوڑے جھنڈے اٹھائے وہاں لازمی دوڑتے جائیں گے لیکن سڑک، بجلی، پانی اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی و مطالبے کے لئے اپنے سیاسی پیر و آقا کے سامنے زبان کھولنا کبھی یہ گوارا نہیں کریں گے۔

گاؤں اور دیہات پر اب کافی حد تک شہروں کا رنگ چڑھا ہوا ہے لیکن پھر بھی کئی چیزیں، کئی عادتیں اور کئی طور طریقے آج بھی ان گاؤں اور دیہات میں ایسے موجود و باقی ہیں جو اب بھی شہری آلودگی اور ترقی کے تڑکے سے پاک بالکل پاک ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی ایک اچھی بات یہ آج بھی عشاء کی نماز پڑھنے کے فوراً بعد سو جاتے ہیں اور صبح فجر کی نماز سے پہلے اٹھ کر نماز کے بعد اپنے کام کاج شروع کر دیتے ہیں۔ ان گاؤں و دیہات میں ہمارے جیسے ایسے بھی ہیں جن کی آنکھیں نو اور دس بجے سے پہلے نہیں کھلتیں لیکن اکثریت کا معمول جلد سونے اور پھر جلد اٹھنے کا ہے۔

یہاں کے بچے اور جوان صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ یاسر استاد جیسے مصروف لوگ بھی ہر وقت مسجد میں دکھائی دیتے ہیں۔ گاؤں میں ایک نہیں کئی چیزیں بدلی ہیں لیکن لوگوں کی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی عادت ابھی تک نہیں بدلی۔ آج بھی جس کو دوسرے بھائی کی ٹانگ کھینچنے کا کوئی موقع ملتا ہے تو وہ پھر ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتا۔ گاؤں کی بہت ساری چیزیں جس طرح بدل گئی ہیں دعا ہے کہ بغض، حسد، غیبت اور منافقت والی یہ عادتیں بھی جلد سے جلد بدل جائیں تاکہ گاؤں و دیہات میں واقعی جنت کا سماں ہو۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari