Awam Zindabad
عوام زندہ باد

امیروں اور کبیروں کا کیا؟ ان کا تو ٹائم پہلے بھی سکون سے پاس ہو رہا تھا اور اب بھی پاس ہو رہا ہے لیکن ایک ایک وقت کی روٹی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے والے غریبوں کا ٹائم کیسے پاس ہوگا؟ غریبوں پر تو روٹی کی تلاش میں ایک ایک لمحہ پہلے ہی قیامت بن کر گزر رہا تھا اب قیامت کی ان گھڑیوں میں ان کا کیا بنے گا؟ ہمارے ان سارے بڑوں اور ان کے ساتھیوں و دوستوں کو تو ہر جگہ سے ریلیف مل ہی جائے گا لیکن غریب عوام کو ریلیف کہاں سے ملے گا؟
نفسا نفسی کے اس دور میں آج بھی اس ملک کے اندر ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، عمران خان، سراج الحق اور چوہدری شجاعت زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن سوال صرف یہ ہے کہ، عوام زندہ باد، کا نعرہ کون لگائے گا؟ لیڈروں اور سیاستدانوں کی سیاست و حکومت کے لئے تو عوام جان کی بازی لگا دیتے ہیں لیکن عوام کے حقوق اور مفادات کے لئے جان کی بازی کون لگائے گا؟
اس سوال کا جواب آج بھی کسی کے پاس نہیں۔ جن کے لئے عوام لڑتے، جھگڑتے اور مرتے ہیں وہ سیاستدان اور لیڈر انہی عوام کے لئے کیا کرتے ہیں یہ سب دنیا کے سامنے ہے۔ ملک اس وقت تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہا ہے یا نہیں لیکن یہ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ کمر توڑ مہنگائی اور معاشی بدحالی کے باعث اس دیس میں رہنے والے بائیس کروڑ عوام اس وقت مشکل کیا؟ مشکل تر حالات سے گزرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، دو کی جگہ ایک روٹی پر گزارہ کرنے والے عوام کو بڑھتی مہنگائی کے باعث اب جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
چھ سات سو روپے والے آٹے کے تھیلے کا تین ہزار روپے تک پہنچنا شائد کہ یہ وزیراعظم شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان کے لئے کوئی بڑی بات نہ ہو لیکن ماہانہ بیس سے تیس ہزار روپے میں پورا گھر چلانے اور خاندان پالنے والے غریبوں کے لئے یہ کسی قیامت سے کم نہیں۔ پھر صرف ایک آٹا نہیں، یہاں چینی، گھی، دال، دودھ، پٹرول، سبزی اور چاول خریدتے ہوئے غریب لوگ ہر روز قیامت پر قیامت سے گزر رہے ہیں۔ اب تو یہاں ہر دن اور ہر رات غریبوں کے لئے قیامت ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قیامت میں بھی انسانیت کو چھوڑ اور بھول کر سیاست سیاست کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں مگر لیڈروں، سیاستدانوں اور حکمرانوں میں کسی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ عمران خان سے لیکر مولانا تک ہر لیڈر اور سیاستدان کو صرف اور صرف اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے۔ ساڑھے تین چار سال تک ملک و قوم سے کھیلنے والے عمران خان آج بھی اس فکر و کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ اسے دوبارہ اقتدار کیسے ملے۔
اس مقصد کے لئے خان صاحب نے زمان پارک میں خیمے و تمبو لگا کر اس وقت پورے ملک کو تماشا بنایا ہوا ہے۔ اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کے لئے کپتان اگر ہزاروں کارکنوں کو زمان پارک میں جمع کر سکتے ہیں تو کیا وہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خلاف چند لوگ اکٹھے نہیں کر سکتے؟ جو جدوجہد اور کوششیں وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے کر رہے ہیں کیا اس طرح کی جدوجہد اور کوششیں وہ عوام کو مہنگائی سے نجات اور ریلیف دینے کے لئے نہیں کر سکتے؟
مولانا اینڈ کمپنی کو تو اب اقتدار کے بچاؤ کی کوششوں اور سوچ سے فرصت نہیں۔ لگتا ہے مولانا جی کے ہاں کل تک جو مہنگائی حرام تھی اب وہ بھی حلال ہوگئی ہے کیونکہ سال سے زیادہ ہونے کو ہے کہ مولانا صاحب کی طرف سے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خلاف کوئی مارچ ہوا اور نہ کوئی ملین مارچ۔ آصف زرداری کی تو بات ہی الگ ہے وہ تو جوڑ توڑ کی سیاست سے فارغ ہی نہیں ہوتے۔ ایسے میں عوام کس کی طرف دیکھیں یا کس سے امیدیں باندھیں؟
فی الحال ایسی کوئی امیداور روشنی تو کہیں نظر نہیں آ رہی۔ جہاں سیاست انسانیت پر غالب ہو وہاں پھر عوام کا اسی طرح کچھ نہیں ہوتا۔ دوسری بات جہاں صرف لیڈر، سیاستدان اور حکمران زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں وہاں پھر عوام پیچھے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس ملک میں بھی لیڈر، سیاستدان اور حکمران زندہ باد کے اتنے نعرے لگ چکے ہیں کہ اب عوام کسی کو یاد نہیں۔ اپنی ذات، مفاد اور سیاست کے لئے عوام عوام تو سب کرتے ہیں لیکن جب عوام کی ذات اور مفاد کی بات آتی ہے تو پھر شہباز شریف سے آصف زرداری اور عمران خان سے مولانا تک سب اندھے، گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں۔
ان لیڈروں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ عوام کے ساتھ ہاتھ کیا پر افسوس یہ عوام ان لیڈروں اور سیاستدانوں کو پھر بھی پہچان نہ سکے۔ آج بھی کمر توڑ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے باعث اکثر گھروں میں فاقے اور کئی کے چولہے بجھے ہوئے ہیں لیکن نادان پھر بھی روٹی، کپڑا، مکان اور عوام زندہ باد کا ایک نعرہ لگانے کے بجائے عمران، شہباز، زرداری اور مولانا زندہ باد کے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔ کہتے ہیں بچہ جب تک روئے نہ ماں اسے بھی دودھ نہیں دیتی۔
زمان پارک، رائیونڈ اور بلاول ہاؤس کے گرد جمع ہو کر عمران، شہباز اور بھٹو زندہ باد کے نعرے لگانے والے جب تک، عوام زندہ باد، کا نعرہ نہیں لگائیں گے تب تک نہ یہ مہنگائی کم ہوگی اور نہ ہی اس ملک سے غربت اور بیروزگاری کا کبھی خاتمہ ہوگا۔ عوام نے لیڈروں اور سیاستدانوں کے بارے میں بہت سوچا۔ اب ایک منٹ کے لئے انہیں اپنے اور اپنے بچوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئیے۔ آج جو لوگ زمان پارک کے گرد جمع ہو کر یہ فلاں زندہ باد اور فلاں مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، انڈے اور ڈنڈے کھا رہے ہیں۔
یہ کام تو انہوں نے پہلے بھی کیا بلکہ ان کے آباؤ اجداد نے بھی کیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ بدلے میں انہیں کیا ملا؟ چالیس نہیں پچاس سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھیں سیاسی پارٹیوں، لیڈروں اور سیاستدانوں کی خاطر ڈنڈوں پر ڈنڈے ہمیشہ عوام نے ہی کھائے، جیلوں اور تھانوں میں بھی یہ گئے، پرچے بھی ان پر کٹے، انتقامی سیاست میں پرخچے بھی ان ہی کے اڑائے گئے لیکن بدلے میں انہیں پھر بھی مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور بھوک و افلاس کے سوا کچھ نہیں ملا۔
آج کپتان کی محبت اور عشق میں یہ جو زمان پارک کے ارد گرد ناچ ناچ کر پاگل ہو رہے ہیں کل کو عمران خان اگر اقتدار میں آئے بھی تو بھی انہیں مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور بھوک و افلاس سے زیادہ کچھ نہیں ملے گا۔ اس لئے فلاں زندہ باد اور فلاں مردہ باد کے نعرے لگا کر اپنے گلے خشک کرنے کے بجائے تمام سیاسی پارٹیوں کے کارکن اور سارے لیڈروں و سیاستدانوں کے پیروکار اگر ایک۔ ہاں صرف ایک بار اجتماعی طور پر، عوام زندہ باد، کا نعرہ لگا دیں تو شائد نہ صرف اس قوم بلکہ اس ملک کا بھی کچھ بن سکے۔

