Mere Teen Dilbar (1)
میرے تین دلبر(1)
جب کیلگری آنے تاریخ طے ہو گئی تو جو پہلا خیال میرے دماغ میں آیا وہ بلیوں سے متعلق تھا۔ گھر میں جو بلیاں موجود تھیں ان کا دیرپا اور محفوظ انتظام۔ ہم نے موجودہ مسائل سے ترتیب وار نپٹنے کا فیصلہ کیا۔ گھر میں دو پالتو بلیاں تھیں اور stray کا تو خیر کوئی حساب کتاب ہی نہیں تھا۔ میرے گھر کا نام ہی "مسکن حریرہ" تھا اور ہم اپنے گھر کی اس شناخت سے از حد خوش بھی۔ خیر تلاش بسیار کے بعد اللہ کے فضل سے دونوں بلیوں کے لئے محفوظ اور آرام دہ گھر مل گئے اور دل کو اطمنان نصیب ہوا۔ اسٹرے بلیوں کو ان کی قسمتوں کے حوالے کر کے عازم سفر ہوئے۔
کراچی چھوڑتے ہوئے گھر، پودے اور سمندر پیر کی زنجیر ہوئے، پر کیا کیجیے کچھ فیصلے دل کے طابع نہیں بلکہ حالات کے رقم کردہ ہوتے ہیں۔ لمبا سفر اور یسرا بیمار۔ 13 فروری کی یخ بستہ دوپہر کو دیار غیر یعنی کیلگری لینڈ ہوئے۔ جہاز کی کھڑکی سے نیچے جھانکا تو حد نظر تک زمین سفید ردا پوش نظر آئی۔ پہلے دن کا بقیہ حصہ تو گفتگو میں بسر ہو گیا۔ بوند برابر دن، پلک جھپکتے ہی تمام ہوا۔ دوسرے دن ناشتے کے بعد اپا نے اعلان کیا کہ ہلتھ کارڈ اور SIN کارڈ بنوانے جانا ہے۔ ہلتھ کارڈ تو سمجھ میں آ گیا پر سن کارڈ نے تھرا دیا۔
ہم نے پوچھا آپا کرامن کاتبین تو کندھوں پر موجود ہیں؟ پھر سن کارڈ کا ٹنٹا کیوں؟ اپا کہنے لگیں بھئ یہSocial insurance numberہے۔ ویسے یہ کارڈ بھی سمجھیے کہ جونیر کرامن کاتبین ہی کی مانند ہے، بندے کا سب کچاچٹھا رقم کرتے اور عاصی کا سارا کیا دھرا جانتے ہیں۔ صبح ناشتے سے فارغ ہو کر قافلہ ڈاؤن ٹاؤن روانہ ہوا اور تین گھنٹے میں ہم پانچوں کے ہلتھ اور سن کارڈ کی ساری کاروائی مکمل ہو گئی اور سرکار جناب نے عرض کیا کہ عزت مآب محترمہ خاتون اپنے کنبے سمیت اپنے دولت کدے پر وآپس تشریف لے جائیں۔ حکومت آپ کے دیار غیر میں قدم رنجا فرمانے کی از حد ممنون ہے اور سرکار آپ کے کارڈ دو ہفتے بعد بزریعہ ڈاک آپ کے دولت کدے پر پہنچا دے گی۔
لو!! واقعی!
ہمیں تو یقین ہی نہ آیا!
نہ کوئی ایجنٹ، نہ رشوت، نہ انتظار کی کوفت اور نہ دھکم پیل۔
آپا سے پوچھا کہ کیا یہ سچ کہ رہا ہے؟
یا نامراد ہم پردیسن کی بے خانمائی سے لطف لے رہا ہے؟
آپا نے کہا نہیں نہیں! واقعی کام ہو گیا ہے۔ بس اب بینک اکائونٹ کھولنا ہے پھر گھر روانہ ہو جائیں گے۔ تیسرے دن دونوں بچیوں کا اسکول میں داخلہ ٹیسٹ ہوا اور ایک گھنٹے کے بعد داخلے کا مژدہ بھی مل گیا۔ دو کا داخلہ یونیورسٹی میں ہونا تھا اور ابھی یونیورسٹی کے داخلے میں کچھ وقت تھا۔ آپا کے گھر کچھ اشک شوئی کی صورت یوں بنی کہ ان کے گھر ایک نہایت بے مروت قسم کا بلا تھا مگر میری مثال بھی کچھ یوں تھی کہ
ایسے لپٹے تجھ سے کہ قبا ہو جائیں
لہذا غریب بلے نے دوستی ہی میں عافیت جانی۔ اب اپنے ٹھکانے کی تگ و دو شروع ہوئی۔ اللہ تعالی رضا بھائی (بہنوئی) کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ انہوں نے میرے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی سے بلکل قریب بلڈنگ میں کرائے کے اپارمنٹ کا بندوبست کرا دیا۔ ہم پانچوں اپارمنٹ میں شفٹ ہو گئے۔ میری فل ٹائم نوکری، بچیاں غریب پڑھائی کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم جاب گویاہے مشق سخن جاری، ہے چکی کی مشقت بھی۔
اللہ کا احسان عزت سے زندگی گزرنے لگی۔ بچیوں کو احساس تھا کہ امی کے لیے کچھ بہت اہم مسنگ ہے۔ میری سالگرہ بھی قریب تھی تو چاروں نے طے کیا کہ Kijiji سے ایک بلی حاصل کی جائے۔ مول لینے کی اوقات تو تھی نہیں۔ اس وقت تو یہ عالم تھا کہ پچاس سینٹ کی دھنیا کی گڈی بھی مہنگی لگتی تھی۔ دماغ میں نصب کیلکولیٹر فوراً ڈالر کو پاکستانی روپے میں تبدیل کر کے حساب کتاب کرنے لگتا تھا۔
Kiji(اس سائٹ پر سکینڈ ہینڈ چیزیں بکتی تھیں اور کبھی کبھی مفت بھی مل جاتی تھی) کافی بلیاں پسند اور مسترد کی گئیں، آخر کار ایک پر چاروں کا اتفاق ہوا۔ ان خاتون اسٹیلا سے رابطہ کیا گیا تو کہانی یہ سامنے آئی کہ وہ اپنے بلے کو بہت بھاری دل سے اس لیے رخصت کر رہی ہیں کہ ان کے دوست اب ان کے پاس مستقل منتقل ہو رہے ہیں اور موصوف بلی سے الرجی ہیں۔
میرے پیچھے میں اسٹیلا دو دفعہ گھر آئیں اور پھر بچیوں سے مل کر اور اپنا مکمل اطمنان کرنے کے بعد وہ اپنا جگر ہم لوگوں کو سوپنے پر راضی ہو گئی۔ بچیوں کی خوشی دیدنی کہ ان کو پتہ تھا کہ امی کو امی کا من پسند تحفہ دے رہیں ہیں۔ شام میں کام سے وآپسی پر گھر میں جشن کا سماں تھا۔ چاروں کا مسرت سے چمکتا خوبصورت چہرہ۔ فریشیلی بیک کیک کی مست کر دینے والی خوشبو۔ کھانے سے بھری ہوئی ڈائینگ ٹبل۔ اب اس محبت سے زیادہ انسان اور کیا مانگ سکتا ہے اپنے رب سے؟ الحمدللہ۔
مگر بچییوں کے چہرے کی تمتماہٹ چغلی کھا رہی تھی کہ پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست، پھر راز کھلا کہ میرا تحفہ ایک عدد بلا ہے، اور وہ پلنگ کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ پلنگ کے نیچے ٹارچ جلا کے دیکھا۔ ہیرے کی طرح دمکتی دو الماس رنگ انکھیں تھی، گلابی ناک پر سیاہ کمان سایہ فگن تھی۔ بلاشبہ حسین بلا تھا۔ کہا چلو چھوڑو بیچارے کو تنگ مت کرو۔ گھر ایک دم سے مکمل مکمل سا لگنے لگا اور اپنی کراچی کی بلیوں کی یاد تازہ کی گئی۔
اس بلے کا نام اس کی مالکن نے ماربل رکھا تھا، یہ گرے ٹیبی تھا۔ میرے گھر اس کا نام میابی ہو گیا۔ میابی کی عمر ڈیڑھ سال تھی۔ اب سب سے دلچسپ پہلو اس قصے کا یہ کہ میابی نے پہلی نظر میں ہمیں رد کر کے یسرا کو اپنا لیا۔ یسرا ہی سے کھانا پینا، اسی کے بستر پر سونا اور باقی تمام گھر والوں کو اگنور کرنا ان کا شیوہ ٹھہرا۔ میابی صاحب بلاشبہ بہت خوبصورت تھے پر میرے دل تک ان کی رسائی نہیں ہوئی سو ان کی بے اعتنائی نے تکلیف بھی نہیں پہنچائی۔
دن گزرتے گئے اور میابی ماحول میں رچ بس گیا۔ اب ہم لوگوں کے پاس بھی بیٹھنے لگا تھا۔ کوئی دو مہینے بعد کی بات ہے کہ ایک دن ہم کام پر تھے کہ ایک ریزیڈنٹ نیناکو لائونج میں بہت متفکر سی بیٹھی دیکھا۔ حال احوال پوچھا تو پتہ چلا کہ پرسو اس کی سالگرہ تھی۔ اس نے خود اپنے آپ کو ایک کتے کا بچہ تحفہ دیا اور شام کو اس کا بیٹا اس کے لئے ایک بلی کا بچہ لے آیا۔ اب پلے اور بلونگڑے کی آپس میں بن نہیں رہی ہے اور وہ دو دو جانور کی ذمہ داری اٹھانے جوگے بھی نہیں۔ ہم نے پوچھا کہ پھر تم چاہتی کیا ہو؟
بولی کہ بلی کا بچہ کوئی لے لے تو اچھا ہے۔ مگر یہاں کوئی لینے کو تیار نہیں۔ اتنے میں اس کا بیٹا بلی کا بچہ لے کے آ گیا۔ ہائے کیا خوبصورت بچہ تھا۔ ایسا حسین کہ انسان پہلی نظر میں دل ہار جائے۔ اُف! سائیمیز۔ سائیمیز یوں بھی میری کمزوری ہے۔ یہ بریڈ(breed)بہت تمیز دار اور سمجھ دار ہوتی ہے۔ نیلی نیلی انکھیں، کالی ناک، دونوں کان کی نوک کالی اور باقی روئی کے گالے کی طرح سفید۔