Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Koyla Bhai Na Rakh (2)

Koyla Bhai Na Rakh (2)

کوئلہ بھئی نہ راکھ (2)

پر بندہ مرتا کیا نہ کرتا۔ ابا ہمارے اکبر اعظم، ان کے آگے کس کی چلتی تھی جو میں پدی نہ پدی کا شوربہ آواز اٹھاتا۔ امی حضور بھی ایک نمبر کی مومنہ ان کے دو ہی خدا تھے، ایک حقیقی اور دوسرے مجازی اور وہ دونوں کی زبردست مقلد، مجال تھی کہ کبھی صراط مستقیم سے دائیں بائیں ہو جائیں۔ شادی اور ولیمے سے فرصت پا کر یونیورسٹی وارد ہوئے تو پتہ چلا کہ پریکٹیل گروپ بھی بن چکے ہیں۔

وہ تو بھلا ہو اپنی منڈلی کا کہ انہوں نے میرا نام بھی اپنے گروپ میں ہی لکھوایا تھا۔ میری اس منڈلی میں چار لڑکے تو اسلامیہ کالج کے اور دو ڈی جے سائنس کالج کے تھے۔ ڈپارٹمنٹ میں پانچ لڑکیوں کا ایک گروپ تھا جو یار لوگوں میں کہکشاں کے نام سے معروف تھا اور جناب حق تھا۔ کیا آب و تاب تھی اس گروپ کی، نظر ٹھہرتی ہی نہ تھی۔

میں تو خیر ان دنوں تھا بھی ذرا جھپو، پھر آہستہ آہستہ ماحول میں رچتا بستا گیا۔ اطراف عالم کی خبر ملتی گئ۔ اسی کہکشاں کی ایک زہرہ جبیں میرے حواس پر بری طرح اثر انداز ہونا شروع ہو گئی تھی۔ جب بھی اس پر نظر پڑتی میرے حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ میں خود اپنی سوچوں سے پریشان تھا۔ ایمان کی بات ہے ایسی کچھ خاص بھی نہ تھی مگر جانے کیا تھا کہ دل سے اترتی، بسرتی بھی نہیں تھی۔

اس نار میں ایسا روپ نہ تھا، جس روپ سے دن کی دھوپ دبے

اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخے گلنار لیے

کچھ بات تھی اس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اس کے چتون میں

وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں۔

میری کوشش ہوتی کہ اس گروپ کے پچھلی رو میں بیٹھوں، قسمت سے اگر پچھلی رو مل جاتی تھی تو پھر لیکچر کا اللہ ہی حافظ ہوتا تھا۔ سب کچھ سر پر سے گزر جاتا تھا۔ ان پانچوں لڑکیوں کے پوائنٹ یکساں نہیں تھے، ایک دن مجھے نہ جانے کیا سوجھی، میں سوسائٹی کے پوائنٹ پر بیٹھ گیا۔ یہ رابعہ (میری زہرہ جبیں) کا پوائنٹ تھا اور ساتھ اس کے ہری مرچ بھی تھی۔

ہری مرچ یعنی نادرہ، یہ کہکشاں گروپ کی spoke person تھی اور باڈی گارڈ بھی۔ اس کی زبان سے لڑکے بھی پناہ مانگتے تھے۔ کوئی بات زمین پر گرنے نہیں دیتی تھی۔ ہر بات کا گھڑا گھڑایہ جواب تیار ہوتا تھا اس کے پاس۔ میں دل ہی دل میں دعا گو تھا کہ نادر شاہ اور رابعہ کا اسٹپ ایک نہ ہو اور وہ یقیناََ قبولیت کی گھڑی تھی۔ نادرہ پہلے اتر رہی تھی مگر اترنے سے پہلے مجھ پر ایک تیز نظر ڈالنا نہیں بھولی تھی۔ اس کے جانے پر میں نے سکھ کی سانس بھری۔

دو اسٹاپ کے بعد رابعہ اتری۔ میں بھی اس کے پیچھے روانہ ہوا۔ اس نے مڑ کر تو نہیں دیکھا مگر وہ ڈسٹرب ضرور تھی۔ ارے یہ کیا رابعہ تو بڑی آپا کی پڑوسن نکلی۔ اپنے گھر کی گھنٹی بجاتے ہوئے ایک نظر مجھے دیکھا۔ میری تو خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا، پھر تو یہ میرا ویک اینڈ کا معمول ہو گیا۔ بڑی آپا ذرا حیران تو ہوئیں اس درجہ آمدورفت پر۔ پھر اکثر یہ بھی ہونے لگا کہ رابعہ انہی اوقات میں بڑی آپا کے گھر کچھ نہ کچھ خوان میں لانے لگی، کبھی پکوڑے تو کبھی پڈنگ۔

ان دنوں میں زمین پر تو نہیں ہاں بادلوں میں محو سفر تھا۔ ہر چیز پر پیار آتا تھا۔ نہ دھوپ سخت لگتی تھی اور نہ انتظار برا لگتا تھا۔ واقعی محبت جادوئی جذبہ ہے۔ بلکہ اب یاد کرتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ میں سلیقے کا بھی ہو گیا تھا، انداز میں ٹھہراؤ تھا اور گفتگو میں بھی شائستگی در آئی تھی، ابے تبے کا استعمال کم ہو گیا تھا۔ لباس پر بھی توجہ تھی اور پڑھائی پر بھی قدرے دھیان دینے لگا تھا۔

ہر ممکن کوشش رابعہ کو متاثر کرنے کی تھی، کامیابی کہاں تک ہوئی یہ خبر نہیں۔ میری منڈلی بھی چونک گئی تھی۔ گروپ میں تشویش تھی کہ میں سدھرتا کیوں جا رہا ہوں؟ یار لوگ پریشان تھے کہ ابے یہ تو پڑھنے بھی لگا ہے۔ ویسے پتے کی بات بتاوں! محبت میں آپ اس گمان میں ہوتے ہیں کہ آپ کامیابی سے اس راز کو راز رکھے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاََ کل عالم کو خبر ہوتی ہے، وہی بات

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے

باغ تو سارا جانے ہے۔

عجب بے خودی کا زمانہ تھا۔ جدائی کی داستان سے وحشت تھی، شاعری اوڑھنا بچھونا بن گئی تھی۔ صبح حسین تھی اور شام رنگین۔ فائنل کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی دل وحشت زدہ ہو گیا اور میں نے سوچا کہ بڑی آپا سے بات کر لوں کہیں دیر نہ ہو جائے مگر انہی دنوں گروپ نے پندرہ دن کا ناردرن ایریا کا ٹرپ پلان کر لیا کہ زندگی کی مشقت میں جتنے سے پہلے سب مل کر آخری تفریح کر لیں کہ پھر سب نے بکھرنا ہی ہے۔

دو ہائیر اسٹڈیز کے لیے امریکہ جا رہے تھے۔ میرا بالکل دل نہیں تھا۔ ایک اضطراب تھا مگر جمال سب کی ٹکٹ لے آیا۔ سب سے بڑی بات ابا نے بھی خوش دلی اجازت دے دی۔ خیر میں نیم دلی سے روانہ ہوا۔ زندگی کا طویل اور اضطراری سفر تھا اور مجھے کیا پتا تھا کہ یہ سفر انگریزی کا سفر بھی بن جائے گا اور میں اس ایک لمحے کی تاخیر کا تاوان تا عمر suffer کرونگا۔

میں جب پندرہ دن بعد واپس آیا تو شام ہی میں بڑی آپا کے گھر گیا اور ان کو ساری بات بتا کر مدد کی درخواست کی۔ بڑی آپا خاموشی سے ساری بات سنتی رہیں پھر چائے بنانے اٹھ گئی۔ میری بے چینی عروج پر تھی اور اب اس میں ہلکا سا خوف بھی شامل ہو چلا تھا۔ بڑی آپا نے چائے کی کپ مجھے تھمائی اور آہستہ سے گویا ہوئیں کہ رابعہ کی پچھلے ہفتے شادی ہو گئی ہے۔

کیا؟

مجھے لگا زلزلہ آ گیا ہے۔ چائے کی پیالی کب گری، گرم چائے نے کہاں کہاں جلایا یاد نہیں۔ بس آپا کا واویلا اور تولیہ سے مجھے پوچھنا ہلکا ہلکا یاد ہے۔ پھر مجھے ہلہلا کے بخار چڑھا، ڈاکٹروں نے ٹائیفائید بتایا۔ میں شدید بخار میں ہزیان بکتا رہا۔ سارے راز تشت از بام ہو گئے۔ میں دو مہینے سے زیادہ صاحب فراش رہا۔ جب طبیعت قدرے بحال ہوئی، بخار اترا تو میں اندر سے بھی بالکل خالی ہو چکا تھا۔ منہ میں لگتا تھا ریت بھری ہوئی ہے۔

ہر وقت پیاس کی شدت محسوس ہوتی۔ آنکھیں کسی بھی منظر کو دیر تک دیکھنے سے انکاری تھیں۔ روشنی اور آوازیں زہر لگتی تھیں۔ دوستوں کو بھی یہ قصہ پتا چل گیا تھا اور وہ ناحق شرمندہ تھے۔ یہ تو تقدیر کا گھاؤ تھا۔ تقدیر کے وار پر کب تدبیر کا داؤ چلا ہے۔ گھر میں کسی نے کچھ نہیں پوچھا، غنودگی کے عالم میں ابا جان ہمیشہ مجھے اپنے اطراف میں محسوس ہوئے، کچھ پڑھتے ہوئے، مجھ پر پھونکتے ہوئے، میرا پسینہ پونچھتے ہوئے۔ امی ان دنوں مجھے یوں سمیٹے رہتی تھیں جیسے مرغی چوزے کو۔

عرصے بعد ایک دن مجھے بڑی آپا نے بتایا کہ رابعہ کی شادی اس کے ماموں زاد بھائی سے ہوئی۔ ممانی بیمار تھیں اور وہی روایتی خواہش کہ مرنے سے پہلے بیٹے کا سہرا دیکھ لیں۔ گھر کی ہی بات تھی۔ نہ چھان بین کی ضرورت تھی اور نہ ہی تحقیق کی۔ لہٰذا کسی تام جھام کے بغیر سادگی سے شادی ہو گئی۔ ہاں نکاح کے بعد رابعہ بڑی آپا سے لپٹ کر بہت بہت روئی تھی۔ بڑی آپا بھی اس کے اس عمل پر قدرے حیران تھیں کیونکہ پڑوس ضرور تھا پر انتہائی قربت نہ تھی۔

اب تو بہت سارے" لیکن اور کاش" جمع ہو گئے تھے میری زندگی میں۔ کچھ دن بعد ابا نے مجھے بھی اپنی دھاگے کی فیکٹری جوائن کرنے کو کہا۔ وہی فیکٹری جو انہوں نے اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد بنائی تھی بلکہ ابھی بھی یہ تکمیل کے مرحلے میں تھی مگر پروڈکشن شروع ہو گئی تھی۔ میں نے کسی روبوٹ کی طرح ان کے حکم کی تعمیل کی۔ میں اندر سے بالکل خالی تھا۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے رد عمل نے خود مجھے بھی حیران کر دیا تھا۔ رابعہ اور میرے بیچ نہ کبھی کوئی بات چیت تھی اور نہ ہی قسمیں وعدے تھے۔ بس ایک نظر کا ملنا اور ایک ہلکی مسکراہٹ، لیکن شاید

بس اک نگاہ پہ ہے دل کا فیصلہ موقوف

بس اک نگاہ میں قصہ تمام ہوتا ہے۔

زندگی کی ایک بات اچھی ہے، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں چلتی رہتی ہے۔ میں نے اپنے آپ کو فیکٹری میں غرق کر دیا۔ گزرے چار سالوں میں گھر میں مزید افراد کا اضافہ ہوا۔

Check Also

Bhutto Ka Tara Maseeh

By Haider Javed Syed