Tarseelat e Zar Aur Bechare Pakistani Tarkeen e Watan
ترسیلات زر اور بیچارے پاکستانی تارکین وطن
مالی سال 25- 2024 جولائی تا نومبر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے جن میں زیادہ تر تعداد غریب مزدور طبقے کی ہے نے 14.76 ارب ڈالرز پاکستان بھیجے ہیں۔ ترسیلات زر پاکستان بھیجنے والے چند بڑے ممالک کی تفصیلات۔۔
جولائی تا نومبر 2024
سعودی عرب۔۔ 730 ملین ڈالر
متحدہ عرب امارات۔۔ 620 ملین ڈالر
برطانیہ۔۔ 410 ملین ڈالر
امریکہ۔۔ 290 ملین ڈالر
اور باقی دوسرے خلیجی اور یورپی ممالک سے۔۔
اگر اسی ایوریج سے پیسے اتے رہے تو مالی سال کے اختتام یعنی جولائی 2025 تک یہ رقم 35 ارب ڈالرز تک ہو جائے گی جو کہ ایک ریکارڈ ہوگا اور یہ رقم بد قسمتی سے پاکستان کی کل ایکسپورٹ جو ممکنہ طور پر 30 ارب ڈالر ہوگی سے 5 ارب ڈالر زیادہ ہوگی۔ واضح رہے کہ مالی سال 2023-24 میں کل برآمدات 30ارب 64 کروڑ ڈالر تھیں۔
واضح رہے کہ انڈیا کی ایکسپورٹ تقریباً 700 ارب ڈالر ہے اور ترسیلات زر 124 ارب ڈالر۔۔ مطلب انڈیا کی ایکسپورٹ ان کی ترسیلات زر سے بہت زیادہ ہے اور ہماری ترسیلات زر ہماری ایکسپورٹ سے بھی زیادہ۔۔ جو دنیا میں شاہد کہیں نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو نا ہونے کے برابر۔
اب معلوم نہیں کہ پی ٹی آئی کی سول نافرمانی کی کال ترسیلات زر پر اثر انداز ہوتی ہے کہ نہیں اور اگر ہوتی ہے تو کتنی؟
میرا ذاتی خیال ہے کہ پی ٹی آئی اور دوسری تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاست پاکستانی معیشت اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والے کاموں سے دور رکھنی چاہیے۔
واپس آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف تو جہاں صرف 7 ارب ڈالر آئی ایم ایف سے بطور قرض لینے پر ہمیں 25 کروڑ عوام اور پوری حکومت اور ملک پاکستان کی عزت داؤ پر لگانی پڑی اور 7 ارب ڈالر بھاری سود پر ملے گا اور تین سالوں میں ملے گا۔ وہ بھی آئی ایم ایف کی قبل از قرضہ کڑی ترین شرائط اور پھر تین سالوں میں کڑی شرائط پر پابند رہنے کی گارنٹی پر ملے گا۔
یہ آئی ایم ایف قرضے والی بات میں نے یہاں اس لئیے لکھی ہے تاکہ حکومت وقت، عام اور خاص پاکستانی اور بلخصوص پردیس میں رہنے، محنت مزدوری کرنے والوں کو احساس ہو کہ 35 ارب ڈالر جو یہ لوگ ہر سال پاکستان بھیجتے ہیں اس کی کیا قدر و منزلت ہے اور کیا اہمیت ہے اور کیا اہمیت ہونی چاہیے۔
یہ 35 ارب ڈالر پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔
میں نے اپنے آج کے کالم کا موضوع "ترسیلات زر اور بیچارے پاکستانی تارکین وطن" اس لئیے لکھا ہے کہ میرے خود پردیس میں تقریباً 25 سال گزرے ہیں اور مُجھے پردیس بلخصوص خلیجی ممالک میں رہنے والے لوگوں کی مشکلات کا اچھی طرح اندازہ ہے۔
جب پردیس میں کوئی پاکستانی جیل جاتا ہے تو پاکستان میں موجود اس کی فیملی پر کیا گزرتی ہے۔۔ (نفسیاتی اور معاشی) اس کا احساس سفارت خانے اور فارن آفس میں بیٹھا کوئی بابو نہیں کر سکتا۔۔
یہاں میں بہت سی مشکلات میں سے چند مشکلات کا ذکر کروں گا، جس پر حکومت وقت کی توجہ سے 35 ارب ڈالرز ہر سال پاکستان بھیجنے والوں کی مشکلات میں کُچھ کمی ممکن ہے۔ اگر میرے اس کالم سے کسی ایک پردیسی کی کوئی مشکل حل ہوگئی تو میں سمجھوں گا میرے کالم لکھنے کا حق ادا ہوگیا۔
پوری دنیا میں 24000 جی ہاں 24 ہزار پاکستانی جیلوں میں ہیں جن میں 7000 پر عدالتی کارروائی کا آغاز ہی نہیں ہوا۔ خلیجی ممالک میں بعض پاکستانی بہت معمولی جرائم اور معمولی جرمانے ادا نا کرے کی وجہ سے جیلوں میں بند ہیں۔
خلیجی ممالک میں 99 فیصد پاکستانی مزدور اور محنت کش ہیں۔ جو زیادہ تر کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ان ممالک کے قوانین سے ناواقف ہوتے ہیں اور معمولی جرائم مثلاً لیبر لاء اور اقامے، لائسنس اور کفیلوں کے معملات کی وجہ سے جیلوں میں چلے جاتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ یہاں میں فلپائن کی مثال دوں گا۔ اگر کوئی فلپائنی کسی بھی کمپنی، شہر سے اپنے سفارت خانے فون کرے تو وہ لوگ فوراً اپنے لیبر کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے سفارت خانوں میں لیبر آتاشی معلوم نہیں ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو نا ہونے کے برابر۔
حکومت پاکستان کو تمام خلیجی ممالک میں درد دل اور سوشل ورک کا تجربہ اور شوق رکھنے والے لیبر آتاشی رکھنے چاہیے اور یہ بات لیبر آتاشی کے لئے ضروری ہونی چاہیے کہ چھوٹے جرائم اور چند ہزار یا لاکھ ریال یا درھم کی خاطر کوئی پاکستانی ایک ماہ سے زیادہ جیل میں نا رہے، ورنہ لیبر آتاشی معطل سمجھا جائے گا۔ ایسے کرنے سے قومی امکان ہے کہ 35 ارب ڈالرز ترسیلات زر بھیجنے والے بیچارے تارکین وطن کی مشکلات میں کمی آ سکے۔
اس کے علاوہ لیبر طبقہ پاسپورٹ ریونیو کروانے کے لیئے سردی اور گرمی میں رات دو اور تین بجے سفارت خانوں کے سامنے لائنوں میں آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک میں جمعہ کی چھٹی ہوتی ہے۔ سب تارکین وطن اس دن چھٹی کرتے ہیں اور ایمبسی اور سفارت خانے بھی اسی دن چھٹی کرتے ہیں، مطلب بند ہوتے ہیں اور لیبر کو پاسپورٹ بنوانے کے لیے ورکنگ دنوں میں چھٹی کرنی پڑتی ہے۔ ممکن ہو تو پاسپورٹ سیکشن چھٹی والے دن کھولنا چاہئے جس سے تارکین وطن کی بڑی مشکل حل ہوگی۔
اس کے علاوہ بیرون ممالک سے میت پاکستان لانے کی پوری ذمہ داری سفارت خانوں کی ہونی چاہیے اور کم سے کم وقت میں۔ اس کے علاوہ بیرون ممالک سے پرسنل استعمال کا موبائل لانے اور کوڈ سے کھلوانا تکلیف دہ اور مہنگا عمل ہوتا ہے۔
اس پر توجہ دینی چاہیے۔ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضہ مافیا کی کڑی نظر ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے خصوصی عدالتیں بنائی جائیں، جو گورنمنٹ کے پلان میں ہے۔ اگر یہ عدالتیں بن گئیں ہیں تو اچھی بات ہے اور اگر ابھی تک نہیں بن سکی تو جلد بننی چاہئے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے چھوٹے شہروں سے انسانی سمگلروں کے ہاتھوں یورپ ڈنکی کا غیر قانونی اور غیر انسانی کام گورنمنٹ آف پاکستان اور ایف آئی اے کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔ جس سے کہیں بہنوں کے جوان بھائی اور کہیں ماؤں کے لخت جگر لاکھوں روپے انسانی سمگلروں کو دینے کے باوجود رات کی تاریکیوں میں کبھی ترکی اور یونان کے سمندروں کی نظر ہو جاتے ہیں اور کبھی ایران کی پہاڑیوں یا جیلوں کی نظر۔ حالیہ کشتی حادثے میں پاکستان کے بیٹوں کی 40 ہلاکتوں کے بعد گورنمنٹ نے انسانی سمگلروں کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے میں موجود کالی بھیڑوں پر بھی ہاتھ ڈالا ہے۔ قانون سازی کرکے انسانی سمگلروں کی سزا، سزائے موت کی جائے، تاکہ یہ چیز کنٹرول ہو سکے۔
35 ارب ڈالرز سالانہ پاکستان بھیجنے والوں کے بہت سارے مسائل اور بھی ہیں جو ایک کالم میں لکھنا ممکن نہیں۔ بیرون ممالک رہنے والے دوستوں اور میرا یہ کالم پڑھنے والوں سے گزارش ہے اپنے مسائل مجھے لکھ کر بھیجیں۔ میں اپنے آئندہ کالم میں لکھ دوں گا۔