Local, International Siyahat Aur Pakistan
لوکل، انٹرنیشنل سیاحت اور پاکستان
قارئین سیاحت کتنی بڑی صنعت ہے اس کا اندازہ آپ ان اعداد وشمار سے لگا سکتے ہیں کہ کرونا کے باوجود سال 2019 میں پوری دنیا میں ٹورازم، سیاحت نے 8 سے 9 ٹریلین ڈالر کا بزنس کیا۔ چند ممالک کی سیاحتی صنعت کے بارے میں اعداد وشمار یقیناً آپ کے لیے دلچسپی اور حیرت کا باعث ہوں گے۔ سیاحوں کی تعداد کس ملک میں کتنی رہی؟ حالیہ چند سالوں میں، فی سال فرانس 90 ملیں ٹورسٹ کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ امریکہ 79سے7 ملین اور چائنا 65سے7جبکہ ترکی جو ایک ماڈرن اسلامک ملک ہے، 51 ملین سیاحوں کے ساتھ نمایاں رہے۔
اگرہم اسلامی ممالک کی بات کریں تو ترکی، یو اے ای(دبئی) ملائشیا، انڈونیشیا نمایاں ترین ممالک ہیں۔ قارئین اگر دنیا کی سیاحت جو 9 ٹریلین تک ہے اور سیاحوں کی تعداد ملین میں، وہاں پاکستان کا حصہ بہت ہی کم ہے بلکہ نا ہونے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود کے اللہ پاک نے پاکستان کو وہ وہ کچھ دیا ہوا ہے کہ اتنی ساری چیزیں ایک ساتھ بہت کم بلکہ شاید چند ممالک کو میسر ہوں۔ جیسا کہ دنیا میں بہت کم ممالک ہیں جہاں پہاڑ، میدان، دریا، سمندر، ریگستان اور دنیا کے سب سےاچھے آم اور کنو کے باغات پائے جاتے ہیں، شدید سردی اور شدید گرمی۔
پاکستان میں کہیں درجہ حرارت 50 ڈگری ہوتا ہے اور اسی پاکستان میں 50- جی ہاں منفی 50 بھی ہوتا ہے، اور قارئین دنیا میں ایسی جگہیں یا ممالک بہت کم ہیں جدھر ایک گھنٹے یا سو کلو میٹر فاصلے پر درجہ حرارت میں 10 سے 15 ڈگری کا فرق ہوجون جولائی میں اسلام آباد، راولپنڈی کا درجہ حرارت اور 80 کلومیٹر دور مری کا درجہ حرارت۔ اسی طرح میں فیملی کے ساتھ چھ دن کے ٹور پر اسلام آباد سے چائنا بارڈر خنجراب پاس گیا۔ یہ میرا پہلا ٹور تھا جی بی یعنی گلگت بلتستان کا۔ تو ہم لوگ یکم جولائی کو بابو سر ٹاپ پوہنچے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ برف باری ہو رہی تھی اور اس وقت ملتان اور سبی کا ٹمپریچر کیا ہوا ہوگا؟
موجودہ اور آنے والی تمام حکومتوں کو اس شعبے پر بہت توجہ دینا ہو گی۔ سیاحت بہت کم خرچے پر پاکستان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ موجودہ حکومت نے سیاحت پر کافی کام کیا ہے مگر ابھی بھی پاکستان میں سیاحت کے پوٹینشل کے حساب سے ایک فیصد کام بھی نہیں ہوا۔ پاکستان 23 کروڑ آبادی کا ملک ہے داخلی ساحت پر توجہ دینے سے اربوں روپے کا ریونیو بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو داخلی اور بین الاقوامی ٹورازم کو پروان چڑھا نے کےلیئے درجہ ذیل اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
ایئرپورٹ کسی بھی ملک کا فرسٹ امپریشن ہوتا ہے۔ تمام ہوائی اڈوں پر انتہائی خوش اخلاق، پرھا لکھا ٹورسٹ فرینڈلی عملہ تعینات ہونا چاہیے۔ ہر ایئرپورٹ پر ٹورسٹ ڈیسک ہونے چاہیے۔ قارئین میں فیملی کے ساتھ دبئی وزٹ پر گیا تو میرے ہوٹل کی گاڑی جس نے مجھے دبئی ایئرپورٹ سے پک کرنا تھا 10 منٹ لیٹ ہوئی تو ٹورسٹ ڈیسک والوں نے دو بار آکر پوچھا کہ کوئی پریشانی تو نہیں؟ پھر ہوٹل کے نمبر پر کال کر کے ڈانٹا کہ گاڑی وقت پر کیوں نہیں آئی؟ بظاہر تو یہ بہت چھوٹی بات ہے۔ مگر ٹورازم کی ترقی کے لئے بہت بڑی بات ہے۔
ہوٹل انڈسٹری کو ترقی دینے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ دنیا کی بڑی بڑی ہوٹل چین کو پاکستان میں انوسٹمنٹ پر آمادہ کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
امن وا مان سیاحتی صنعت کے لیئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اس طرف خصوصی توجہ دینی ہو گی۔ ہمارے ملٹری اداروں کی حکمت عملی اور آفیسرز اور جوانوں کی قربانیوں نے امن و امان لانے میں لاجواب کردار ادا کیا اور کر رہے ہیں۔
ٹورازم پولیس۔ الگ سے تھائی لینڈ طرز پر ایک ٹورسٹ پولیس بنائی جائے۔ جس کو مختلف اور خاص کر انگلش زبان پر عبور حاصل ہو۔ ٹورسٹ سے کیسے بات کرنی ہے؟ کسی مشکل یا پریشانی پر ٹورسٹ سے کیسے ڈیل کرنا ہے؟ اور پاکستان ٹورازم کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
صفائی ستھرا ئی کا مکمل اور جدید نظام۔
مختلف سیاحتی علاقوں تک رسائی کے لیے روڈز کا جدید ترین نیٹ ورک۔
ٹرانسپورٹ کا جدید، محفوظ اور ٹورسٹ فرینڈلی نیٹ ورک۔
برفانی علاقوں کی بجلی انڈرگراؤنڈ کی جائے تاکہ ذرا سی برف باری سے ہفتہ ہفتہ بجلی غائب نا ہو۔ جیسا اسلام آباد سے 70 کلومیٹر دور مری میں ہوتا ہے۔ کشمیر، گلگت، جی بی، ناران کاغان، سوات زیارت میں کیا ہوتا ہو گا؟ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ جو آج کے دور کی ایک بنیادی ضرورت بن گئی ہے ہر ٹورسٹ ڈسٹینیشن پر انٹرنیٹ تک رسائی ممکن بنائی جائے۔ یہ نا ہو جیسا میرے ساتھ ہوا کہ ناران جا کر آپ دنیا سے کٹ جائیں، نا موبائل سگنل اور نا ہی انٹرنیٹ۔
ٹورازم اور ہوٹل منیجمنٹ کے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا قیام۔
عرب خاص کر جی سی سی ممالک جن میں سعودی عرب، یو اے ای، بحرین، قطراور کویت کے امیر ترین ممالک شامل ہیں، جو یورپ امریکہ سیاحت پر اربوں ڈالر سالانہ خرچ کرتے ہیں ان ممالک میں پاکستانی سیاحت کو پروموٹ کرنا۔ ان ممالک میں موجود پاکستانی سفیرکو اور الگ سے ایک ٹورسٹ منیجر لگا کر ٹاسک دی جائے کہ ہر سال ہر جی سی سی ملک سے 50ہزار سیاح پاکستان لائے جائیں۔
داخلی سیاحت کے لئے پہاڑی علاقے۔ مری، کشمیر، گلگت بلتستان اور خطہ پوٹھوہار کے لوگوں کے لئیے میدانی اور ساحلی علاقوں میں ٹورسٹ اٹریکشن پیدا کرنا جو برف اور پہاڑ دیکھ دیکھ کر اکتا گئے ہیں۔ اسی طرح میدانی اور گرم علاقے کے لوگوں کے لئیے پہاڑی اور سرد ایریاز کی پروموشن۔
ٹورسٹ گائیڈ کی قابلیت کم از کم تعلیم بی اے اور ٹورازم کورس اور کسی اچھے ٹورازم ادارے سے تربیت یافتہ لوگوں کو ہی ٹورسٹ گائیڈ ہونا چاہیے، نہیں تو مری اور دوسرے سیاحتی مقامات سے ٹورسٹ اورٹورسٹ گائیڈ کی لڑائی جھگڑے گالم گلوچ کے واقعات ہوتے رہیں گے۔
سیاحتی علاقوں میں پرائس کنٹرول، چونکہ ہر سیاحتی مقام پر ٹورسٹ کو خوب لوٹا جاتا ہے۔ عام علاقوں کی نسبت ڈبل، ٹرپل قیمتیں وصول کر کے۔ چاہے وہ رہائشی ہوٹل ہو یا کھانے پینے کا ریسٹورنٹ، کریانے کی دکان ہو یا پھل فروش نائی، دھوبی ہر آدمی سیاحوں کو لوٹنے پر لگا ہوتا ہے۔ ہر ہر چیز کے ریٹ طے کر کے نمایاں جگہ پر آویزاں کیے جائیں۔ خلاف ورزی پر بھاری جرمانے کیئے جائیں۔
یہ چند گزارشات تھی جو ٹورازم کے حوالے سے عرض کرنی تھی۔ ان پر عمل کر کے پاکستان ٹورازم انڈسٹری کو بہت ترقی دی جاسکتی ہے۔