Hamare Muntakhab Numainde Awam Se Hain
ہمارے منتخب نمائندے عوام سے ہیں؟
آج ہم ایک ایسی حقیقت پر بات کرنے جا ریے ہیں جو پاکستان بننے سے ہی چل رہی ہے مگر ہم نے اس پر نا کھبی بات کی اور نا کھبی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے اور کب تک ایسے ہی چلے گا۔۔ جیسا کہ کالم کا عنوان ہے کہ کیا ہمارے منتخب نمائندے عوام سے ہیں؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب نہیں میں ہے۔
وہ ایسے کہ ہماری قومی اسمبلی، تمام صوبائی اسمبلیوں، سینٹ، گورنرز، صدر وزرائے اعظم موجودہ اور تمام سابقہ نمائندوں کا طرز زندگی، رہہن سہن، اٹھنا بیٹھنا، ان کا اور ان کی اولاد کا پڑھنا لکھنا، ان لوگوں کا علاج معالجہ، ان کے گھر بار کتنے فیصد پاکستانیوں جیسے ہیں؟ شاید ایک فیصد پاکستانی بھی ایسا لائف سٹائل نہیں رکھتے۔
قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں موجود لوگ جب عوام سے نہیں ہیں تو انہوں نے 90 فیصد غریب ترین پاکستانی عوام کا بہلا کرنا ہے یا 10 فیصد اپنی کلاس اشرافیہ کا بہلا کرنا ہے۔ بس یہی بات سمجھنے کی ہے۔ جس دن ہماری 90 فیصد غریب ترین پاکستانی عوام یہ بات سمجھ گئی اس دن پاکستان میں حقیقی تبدیلی آئے گی۔
90 فیصد غریب ترین پاکستانی عوام کی منتخب ایوانوں میں نمائندگی نا اب ہے نا پہلے کبھی رہی ہے۔ یہ لوگ صرف دس فیصد اشرافیہ اور خواص کے نمائندے ہیں عوام کے نہیں۔ اشرافیہ کو سر پر بیٹھانے کی عادت اور روایات اس قدر مظبوط ہو گئی ہے کہ یو سی کونسلر اور یو سی چیئرمین بھی اپنے علاقے میں اثر ورسوخ والا اور علاقے کا امیر ترین آدمی ہی منتخب ہوتا ہے۔
اس روایت کو تورنا ہو گااندر کمار گجرال کی "عام آدمی پارٹی " جب انڈیا کے دارالحکومت دھلی میں طاقتور ترین کانگریس اور بی جے پی کو ہرا کر عام لوگوں کی حکومت بنا سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں؟ اگر درج زیل اقدامات کیے جائیں تو پاکستان کی مڈل، اپر مڈل کلاس کے لوگ بھی منتخب ایوانوں تک پہنج کر 90 فیصد غریب ترین پاکستانی عوام کی حقیقی نمائندگی کر سکتے ہیں۔۔
چند صاف ستھرے ججوں، جنرلوں، اور ہرسیاسی پارٹی سے دو، دو صاف ستھرے کرپشن سے پاک لوگوں پر مشتمل دو سال کے لئے گورنمنٹ بنائی جائے، جس کا مینڈیٹ مندرجہ ذیل ہو۔۔ 1947 سے2022 تک جن ارب، کھرب پتی لوگوں نے بنک قرضے معاف کروانے سود سمیت وصول کیئے جائیں۔۔ نہیں تو پھانسی۔
جس جس کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہوں، بحق سرکار ضبط کیئے جائیں، نہیں تو پھانسی۔ جس جس کے پاس کسی دوسرے ملک کی نیشنیلٹی ہو۔۔ بیرون ملک اثاثے ہوں یا ملک کے اندر یا باہر 50 کروڑ سے زاہد اثاثے ہوں (جائز یا نا جائز) الیکشن لڑنے پر پابندی لگائی جائے۔ چین کی طرح معمولی اور بڑے جرائم پر سزائے موت دی جائے۔
کسی بھی منتخب نمائندے کو اپنے بچے گورنمنٹ سکول، کالج کے علاوہ پڑھانے پر قانوناً پابندی ہونی چاہیے اور کسی بھی منتخب نمائندے، اسکی اولاد اور فیملی کا علاج قانوناً سرکاری ہسپتالوں میں ہی ہونا چاہیے۔۔ اگر کوئی منتخب نمائندہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول میں داخل کروائے یا پرائیویٹ علاج کروانے تو فوراً ڈی سیٹ کر دیا جائے، قارئین اگر ایسا ہو جائے تو پاکستان کے تمام سرکاری ہسپتال اور سرکاری سکول کالج ایک دن جی ہاں صرف 24 گھنٹے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔
اگر کسی کا خیال ہے۔ کہہ اسطرح جمہوریت، آئین، قانون ڈسٹرب ہو گا تو عرض ہےپی ٹی آئی کا وکٹیں گرانا، ن لیگ کا چھانگا مانگا اور سندھ ھاؤس کی منڈی۔ یہ جمہوریت ہے۔ یہ آئین ہے یہ قانون ہے؟
اور کیا 90 فیصد غریب ترین پاکستانی عوام کو ہر قسم کے بنیادی حقوق سے 72 سالوں سے محروم رکنھا جمہوریت ہے کیا؟ کیا یہ غریب، بھوکی ننگی قوم اس دس فیصد اشرافیہ کے نعرے مارنے کے لیے ہی ہے۔۔ کیا عوام کو اپنے جیسے حقیقی عوامی نمائندے منتخب ایوانوں میں بیجھنے کا کوئی حق نہیں؟