Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Mutashabehat e Islam

Mutashabehat e Islam

متشابہات اسلام

ماہرین کی رائے کے مطابق دنیا میں آج تک کسی قوم نے کسی دوسرےکی زبان میں ترقی نہیں کی بلکہ وہ اپنی اصل حالت سے بھی گر جاتے ہیں، تو پھر کسی کی ثقافت، تہذیب و تمدن کو اپنانے سے کوئی کیونکر اور کیسے پوری دنیا میں معزز ہو سکتا ہے؟ اس اصول کو سامنے رکھیں تو وطن عزیز اور امت مسلمہ کی پست حالی اسی کی ہی مرہون منت ہے۔ تاریخ کے اوراق ٹٹولیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلاف اسلام اس وقت کی معلوم دنیا میں کونے کونے تک دین اسلام کا پیغام اور ثقافت اسلام کو پہنچا کر اسلام کی پہچان کرائی۔

مگر اس کے لیے انہوں نے گھر بار بھی چھوڑا، اور جسم و روح کی ہیبت ناک اذیتیں بھی برداشت کیں۔ مگر آج ہماری موجودہ النسل کی حالت دیکھو تو سوچ کے ہیبت ناک اذیت ناگزیر پڑتی ہے کہ ہم آج اسی پیغام کو اسی ثقافت اسلام و پہچان کو دولتیاں مارنے کے لیے گھر بار چھوڑ رہے ہیں اور ایمان کو مسخ کرنے کی صناعی کو بھی اپنا رہے ہیں۔ ہم بحیثیت من حیث القوم ناسور بنتے جا رہے ہیں۔

جو کردار ہم نے اپنانے شروع کئے ہیں جس ڈگر پہ ہم چل نکلے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے جہنم کے گڑھے کھود رہے ہیں۔ پر مجال ہے کہ عقل کے ناخن لیں اور سدھر جائیں۔ عہد حاضر میں امت کو درپیش کبیر و گھمبیر مسائل میں سے اک بڑا مسئلہ مشابہت کا ہے۔ اور یہ مشابہت ہماری سرشت میں ایسی سرائیت کر چکی ہے کہ خدا کا خوف، رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کا خوف، موت کا ڈر اور نہ قیامت کا خیال بس لگے ہیں ایمان کو جڑ سے نکال پھینکنے کی سعی نامراد کر رہے ہیں۔

مشابہت کے حوالے سے بڑی سخت وعیدیں قرآن و احادیث میں بیان ہوئیں ہیں مگر ہم ہیں کہ غور و فکر کرتے ہی نہیں بلکہ ہم اضل کی تمثیل دھار چکے ہیں۔ محبوب مدنی علیہ الصلوات والسلام کا فرمان مبارک ہے۔

لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا بشبر و ذراعا بذراع حتی لو دخلوا حجر ضب تبعموھم قلنا یا رسول اللہ الیھود و النصاری؟ قال فمن؟ (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام باب قول النبی ﷺ، لتتعبن سنن و من کان قبلکم حدیث: 7320)

(صحیح مسلم، کتاب العلم باب اتباع سنن الیھود والنصاری: ح 2669)

"تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طور و طریقوں کی اس طرح پیروی کرو گے جس طرح ایک بالشت دوسری کے برابر ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تو تم اس میں بھی ان کے پیچھے لگو گے۔ ہم نے کہا، یا رسول اللہ کیا وہ یہودی اور عیسا ئی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا، تو اور کون ہیں؟ ـ

اس حدیث پاک کو پڑھنے کے بعد مجھے اپنے موجودہ حال کے بارے میں کہنے کی کوئی ضرورت نہیں بنتی کہ یہ حدیث پاک آج ہماری زندگیوں پہ اور ہم پہ کتنی مطلق ثابت آتی ہے۔ ہاں سوال یہ ضرور عقل والوں کے ذہن میں اٹھنا چایئے کہ آخر مشابہت ہے کیا؟ لغوی اعتبار سے لفظ التشبہ مشابہت سے ماخوذ اور مشابہت نام ہے مماثلت، نقل، تقلید اور پیروی کا، نیز مشابہت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آپس میں ملتی جلتی ہوں لہٰذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی مشابہت اخیتار کر کے اس جیسا ہو گیا۔ (کفار سے مشابہت۔ ایک شرعی و تحقیقی جائزہ)۔

اب اس لغوی مفہوم کو سامنے رکھ کر نہایت ایمانداری سے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم کتنے کھرے اور کتنے کھوٹے ہیں؟ کتنے ہم محمدی اور کتنے افرنگی ہیں؟ ہمارے اٹھنے تک کونسا عمل، کونسا عنصر شریعت کے موافق ہے سوائے نماز کے وہ بھی آدھوں کو نصیب ہے اور بہت سوں کی تو بس انااللہ ہو چکی ہے۔ اور دور حاضر میں امت کو درپیش اک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں کچھ آتا ہے یا نہیں مگر چرب زبانی میں ہم کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اور یہ چرب زبانی ہماری اتنی سر چڑھ کے بول رہی ہے کہ ہمیں اصول شریعت تک کا پاس نہیں۔

ہم نے اسلام و شریعت کی اپنی منفعت کی خاطر اپنے اپنے تفہیم گڑھ لیے ہیں۔ ہمارا اجتماعی مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی تہذیب و ثقافت اور اسکے ظاہری رنگ و روغن سے اس قدر مرعوب ہو چکے ہیں کہ انہی کی ثقافت کو اپنانے پہ فخر محسوس کر رہے ہیں۔ اور اسکے برعکس مذہبی ثقافتی رنگ میں رنگنے پہ شرم و عار محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ ہماری دوسروں کی ثقافت سے مرعوبیت کی اس بیماری کو اغیار ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

ہندوستان کے مکار سیاستدان اکثر اس بات کا اظہار برملا کر چکے ہیں کہ اب ہمیں پاکستان سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہم نے اپنی ثقافت پاکستان کے گھر گھر پہنچا دی ہے اور اب ان کے دلوں میں ہماری ثقافت رقص کر رہی ہے جو کہ بدقسمتی سے عین حقیقت ہے۔ اغیار کی یہ سوچ ہمارے لیے اک المیہ اور لمحہ فکریہ ہے۔ غیروں کی اقدار، تہذیب و ثقافت اور عقائد و رسوم ہمارے لیے دنیا میں تو مہلک ثابت ہونگے ہی کہ آخرت بھی ہماری برباد کر دے گی۔ اور حاضر حال میں ہمارے احوال اس کی بھرپور غماز ہیں۔ ذرا تاریخ کے اوراق پلٹیے اور مسلمان قوم کے عروج کی داستانیں ملاحظہ کیجیے۔

امیر المئومنین عمر بن خطابؓ نے کیا خوب فرمایا تھا:

نحن قوم اعزنا اللہ، بالاسلام و ادا طلبناہ فی غیرہ اذلنا اللہ۔

"ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ مربوط و منسلک رہنے میں عزت عطا فرمائی ہے۔ اگر ہم نے اسلام کے علاوہ کسی دین یا تحریک سے اپنی عزت کی راہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل کر دے گا۔ "

اغیار اسلام کی مشابہت زہر آلود اور جان لیوا حقیقت ہے پر ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ذرا دیکھیں تو سہی کیا آج ہمارے ہاں سٹار پلس جیسی بدنام زمانہ نحوست موجود نہیں؟ اور اسکی آنکھوں کو چندھیا دینے والی رنگ و روغن کے مہلک اثرات معاشرے میں گھر گھر سے نہیں نکل رہے؟ ہندوانہ رسومات کی نقالی کرتے ہوئے ہماری شادی بیاہ کے تقریبات مائیوں، مہندی رات، گود بھرائی اور بارات جیسی گمراہ کن خرافات سے نہیں گزرتے؟

دلہن کے گھر سے آنے والی اشیا، پہ چینی پھینک کر استقبال کرنا، دولہے کی دعوت طعام پہ جوتا چھپائی کا اہتمام کرانا سب ہمارے ہاں کہاں سے آیا؟ اور یہی نہیں گھر کے اندر فطرت اسلام پہ پیدا ہونے والی عورتوں اور لڑکیوں کا حال شادی بیاہ کی رسومات میں قیامت خیز ہوتا ہے۔ شیطانی سورماؤں کی ایجاد کردہ سر اور موسیقی پہ بغیر دوپٹوں کے مخلوط رقص اور انفرادی رقص کی محافل کا باقاعدگی سے اہتمام کرنا، دولہا اور دلہن کو لا کر بھرے مجمع میں اونچی امتیازی جگہ پہ بٹھا کر اسکا نامحرم بصارتوں سے درگت بنا دینا ہندوانہ تہذیب و ثقافت کی ہی تو دین ہے۔

اسکے علاوہ بسنت فیسٹیول، نیا شمسی سال منانا، محبت کا دن ویلنٹائن ڈے منانا وغیرہ یہ سب کہاں سے ہمارے ہاں آیا؟ کبھی سوچا، کبھی غور کیا ہے ہم نے؟ ہماری عقل پہ تو جہالت کی ایسی پٹی بندھی ہوئی ہے کہ مشابہت کے فتنے کے خلاف معمولی سی بات بھی سننا گوارا نہیں کرتے تو اسکے غلط و گمراہ کن ہونے کے حوالے سے سوچنا و غور و فکر کرنا تو درکنار۔

اس طرح جنم دن (برتھ ڈے) اور اینورسری کی خوشی میں موم بتیاں جلا کر کیک کاٹ کر منانے کی جدت پسند خرافات کے بھی ہم پورے دل و جان سے امین بنے ہوتے ہیں۔ دور حاضر میں امت مسلمہ کا بڑا المیہ خرافت زدہ رسومات کی ادائیگی سے زیادہ اس سے مانع کرنے پہ دفاعی و مزاحمتی رویے کا ہے۔ کبھی سوچا ہے جنم دن (برتھ ڈے) یا اینورسری کا ناسور کس قوم کا گڑھا ہوا ہے؟

یہ سب مشرکوں کے کرتے دھرتے ہیں۔ (جسکی تفصیل پھر کبھی کسی وقت بیان کرونگا) انتہائی دکھ اور شرم کی بات ہے کہ مشرکین کے یہ افعال ہمارے لیے ہر دلعزیز اور ان سے منع کرنے والوں کے خلاف صف بستہ ہو کر باقاعدہ میدان میں اتر آتے ہیں۔ مشرکین یا غیر اسلام والوں کی مشابہت میں رنگ کر خوف زہ رسومات پہ سینہ تان کر فخر محسوس کرنے والوں ذرا دیکھیں تو سہی صاحب قرآن کیا فرماتا ہے۔

من تشبہ بقوم فھو منھم (ابوداود، ح 4031)

جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے۔

لتتبعن سنن من کان قبلکم (بخاری حدیث 7320)

کہ تم اپنے سے پہلوں کی پیروی کرو گے۔

تو یہ آپ نے خبردار کرنے کے لیے فرمایا کہ دیکھو مشابہت کا دور ہو گا۔ تو تم بچ کر رہنا۔ اسی طرح اور بہت ساری احادیث مبارکہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔

خائفو المشرکین۔

مشرکین کی محالفت کرو۔

خائفو الیھود۔

یہود کی مخالفت کرو۔

خائفو المجوس۔

یعنی مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

ہمیں ہر اس چیز کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے جو کفار کے ساتھ خاص ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو دو زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہو کر دیکھا تو فرمایا۔

ان ھذہ ثیاب الکفار فلا تلبسھا۔

بے شک یہ کفار کا لباس ہے تم اسے مت پہنو۔

یاد رکھیں کفار سے مشابہت ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ اسے مسلمانوں کو صراط مستقیم سے ہٹا کر گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ اور آج ہم بطور قوم مجموعی طور پر مشابہت کی آڑ میں اسی ڈگر پہ چل نکلے ہیں۔ اور ایسوں کے متعلق قرآن میں شدید وعید آئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

"و من یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المئومنین نولہ ما تولی و نصلہ جھنم و سآ، ت مصیرا) النسآ۔ "

"جو شخص رسول کی مخالف کرے اور اہل ایمان کی راہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ چلے درآں حال یہ کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی ہے۔ تو ہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے۔ (کفار سے مشابہت۔ ایک شرعی و تحقیقی جائزہ تالیف۔)"

خدارا اب بھی وقت ہے سنبھلنے کا، مشابہت کفار سے روگردانی اور توبہ تائب ہو جائیں اور خود کو صراط مستقیم کے مسافر بنیں کہ وہی اصل مقصود و منزل ہے۔ اگر ہم نے مشرکین اسلام کی تہذیب و ثقافت وغیرہ ہر اس چیز میں نقالی اور مشابہت کو ترک نہ کیا تو درجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث کے بیان کردہ اصول کے مطابق ہم بھی ان میں شمار ہونے لگیں گے۔ اگر ہم مسلمانان اسلام آج بھی کتاب و سنت کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیں اور کفار کی تقلید و تشبیہ سے اپنے آپ کو بچا لیں تو اللہ تعالیٰ ہمارے تمام معاملات کو سنوار دے گا۔ اور ہمیں پوری دنیا میں عزت سے نواز دے گا اور آخرت میں بھی۔

اللہ کرے یہ باتیں ہماری سمجھ و عمل میں آ جائیں۔ آمین۔

و ما ذالک علی اللہ بعزیز۔

نوٹ: مشابہت کے حوالے سے اسکی اقسام، اور احکام تفصیل سے جاننے کے لیے، کفار سے مشابہت۔ ایک شرعی و تحقیقی جائزہ۔ کا مطالعہ کریں۔

تالیف: فضیلۃ الشیخ دکتور ناصربن عبدالکریم العقل (الریاض، سعودی عرب)

اردو ترجمہ: ابو اسامہ محمد ظاہر آصف کا مطالعہ افادیت کا حامل ہے۔

Check Also

9 Lakh Ki Azmat Aur Awam Ka Qarz

By Muhammad Salahuddin