Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Adab e Zindagi (2)

Adab e Zindagi (2)

آداب زندگی (2)

4) ایک اور عادت جو ہمارے ہاں سرائیت کر چکی ہے وہ ہے قطار نہ بنانا۔ ہم میں سے ہر کوئی اس کوشش و جستجو میں لگا رہتا ہے کہ وہ قطار کو توڑ دے اور اپنی باری آگے کرلے۔ ہمیں اگر بس کی ٹکٹ خریدنا ہو، ٹرین کا ٹکٹ لینا ہو، بل جمع کرنا ہو وغیرہ نیز ہر جگہ پہ ہمار اضطرابِ بد تمیزی اس حد تک آچکا ہوتا ہے کہ ہم قطار کو توڑنے کی ہر ممکن و ناممکن سعی کرتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو دست و گریباں ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اک عجیب ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں۔

ہم تو قطار توڑ کر اپنی باری آگے کرا لینے کو ہی اپنی طرم خانی سمجھتے ہیں۔ جبکہ یہ ہم یکسر بھول جاتے ہیں کہ کیا یہ حرکت مہذب لوگوں کو زیب دیتی ہے؟ یہ آج جو ہم دوسرے ممالک سے اتنے متاثر ہوتے ہیں، ہر دوسری بات میں باہر کے ممالک کے طرز زندگی کی مثالیں دے دے کر تھکتے نہیں، ہمارا ہر دوسرا جوان بشمول مرے ان ممالک میں زندگی گزارنے کے سپنے دیکھتا رہتا ہے۔ پر کبھی سوچا ہے ہم نے کہ ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟ ان کو اقوام عالم میں اتنی قدر کی نگا ہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے او ر ہمیں رسوا اور ذلیل آنکھوں سے کیوں؟ اسی کی فقط یہی وجہ ہے کہ ہم میں من حیث القوم تہذیب نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔

تو جب تک ہم ان حرکتوں کو نہیں چھوڑیں گے تب تک ہم تہذیب کے دائرے میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط ہمارے لیے مہذب بننے کی کسوٹی دی گئی ہے۔ اور بد قسمتی سے ہم اس میں کسی بھی معیار کے پاس سے بھی نہیں گزرتے۔ مہذب بننے کے لیے ان حرکتوں کو چھوڑنا ہوگا تا کہ ہم اس ادب کے مستحق بن جائے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہے، جو قرآن میں سکھائی ہے اور ہم مؤدب کہلائے جائیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ قرآن آداب کے حوالے سے کیا عنوان باندھ کر کیا تعلیم فرماتا ہے۔

(الف) گھر میں رہنے کے آداب: رب تعالیٰ جل شانہ ہمیں گھر میں رہنے کے آداب کے بارے میں تعلیم فرماتا ہے کہ، کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہوں حتیٰ کہ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہیں تو اپنے آنے کی علامت ظاہر کرو اور داخل ہوتے ہی سب کو سلام کرو۔ اور پھر محبوب پا ک علیہ الصلواۃ والسلام بھی تو گھر میں رہتے تھے کیا ہی مہذب اور خوبصورت طریقے سے رہتے تھے۔ محبوب پاک علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنی سنت مبارکہ سے یہ تعلیم فرمائی کہ گھر میں غصہ نہیں کرنا، برتن ٹورنا یا پھینکنا نہیں، کوئی کھانا گر پسند نہیں تو لعن طعن نہیں کرنا، اپنے ازواج کا گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹھانا ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ سارے تہذیب کی علامتیں ہی تو ہیں۔ محبوب پاک ﷺ جب خود گھرمیں ہوتے تھے تو آٹا تک گوندتے تھے، کپڑے میں پیوند خود لگاتے تھے، بستر بچھاتے تھے یہ سب وہ آداب ہیں جن کی تعلیم قرآن بھی دیتا ہے اور صاحب قرآن بھی۔ اور یہی آداب اپنانے والے ہی دراصل مہذب ہوتے ہیں۔ لیکن آج ہمارے گھروں کا حال دیکھ لیں کانوں کو ہاتھ لگانے والے ہوتے ہیں۔ گھر مثل بہشت ہوتا ہے اور بہشت میں جنگ اختلاف نہیں ہوتے کیونکہ جنگ اور اختلافات کے ہوتے ہوئے جنت کا وجود ممکن نہیں۔

(ب) مجلس کے آداب: قرآن مجلس کے آداب کی بھی تعلیم فرماتا ہے۔ سورۃ المجادلۃ 85، آیت 9 میں ہے۔

مفہوم: آپ ﷺ نے فرمایا جب تم کسی محفل میں آؤ تو جگہ جہاں ملے وہاں بیٹھ جاؤ۔ لوگوں کے گردنیں نہ پھلانگو اور اگر کوئی بات کر رہا ہو تو اس پہ سلام بھی اونچی آواز میں نہ کرو بلکہ دل میں اس پہ سلامتی بھیجو اور وہاں بیٹھ کر اسکی بات غور سے سنو۔ کوئی سوال یا بات پوچھنے کی ضررورت محسوس ہو تو اجازت لے کر سوال یا بات پوچھو۔ اور اگر محفل میں کوئی بزرگ بات کررہاہو تو بالکل ہی مؤدب ہو جاؤ۔

(ج) کھانے کے آداب: قرآن نے ہمیں کھانے کے آداب بھی سکھائے ہیں۔ فرماتا ہے جب کھانے کی دعوت پہ بلائے جاؤ تووہاں پہ اضطراب کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ انتظار کرنا ہے اور کھانا تب شروع کرناہے جب تک میزبان نہ کہے، کہ شروع کریں۔ اور پھر جب شروع کریں کھانا تو کھانے کی مقدار اور مہمانوں کی تعداد کو دیکھ کر کھانالیں۔ ایسا نہ ہو اک ساتھ 5 مہمانوں کے برابر کا کھانا اٹھا کے اپنے پلیٹ میں ڈال دو۔ اور یوں بعد میں کھانے کی اشیاء میں کمی میزبان کے لیے باعث شرمندگی بنے۔

اگر کھانے کی ترتیب اک پلیٹ میں اکٹھا کھانے کی ہے تو ایسا بھی نہیں کرنا کہ سب کچھ اپنے ہی طرف کرکے کھاتے رہو۔ یعنی اک بندہ نوالہ لینے کے لیے ہاتھ پلیٹ میں ڈال دے اوپر سے آپ بھی ہاتھ ڈال لیں یہ حرکت غیر مہذب لوگوں کی ہوتی ہے۔ کھانا ختم کرنے کے بعد میزبان سے اجازت لینی ہے اور کھانے میں نقص نہیں نکالنے، کہ یہ گناہِ کبیرہ میں آتا ہے۔ کیونکہ رزق کی بہم رسانی آپ تک رب کائنات جل شانہ کے ذمے ہے اور اس میں نقص نکالنا اللہ کے نظام پہ معترض ہونا ہے اسکی نافرمانی میں آتا ہے۔ اور اللہ کی نافرمانی گناہِ کبیرہ ہے۔

(د) محمد ﷺ کو پکارنے کے آداب: قرآن فرماتا ہے کہ محبوب مدنی ﷺ کو ایسے نہ پکارا کرو کہ جیسے تم اپنے بڑے بھائی کو پکارتے ہو۔ مرے محبوب پاک علیہ الصلواۃ والسلام کو اسکے صفاتی نام سے یاد کیا کرو۔ اللہ جل شانہ نے بھی قرآن میں صرف 4 جگہ پہ اپنے حبیب پاک ﷺ کو نام (محمد) سے مخاطب فرمایا ہے۔ صرف اس لیے کہ لوگوں کو اسکی عادت نہ بنے کہ مدنی سرکار دوجہاں ﷺ کو اسکے ذاتی نام سے پکارا کرو۔ یہ اس لیے تا کہ ہم ادب کے دائرے سے باہر نہ نکل جائے۔

یادرکھیں مسلمان مومن غیر مہذب نہیں ہوسکتا کیونکہ سب سے زیادہ منظم اور مہذب دین، دین اسلام ہے۔ جو حدود میں رہنے کا درس دیتا ہے۔ جب تک ہم تہذیب نہیں سکھیں گے تب تک ہم ادب والے، مؤدب قوم نہیں کہلائے جا سکتے۔ اور تہذیب آداب سیکھنے سے ہی آتا ہے۔ وہ آداب جسکی تعلیم قرآن دیتا ہے جسے رہنے سہنے کے آداب، کھانے کے آداب، مجلس کے آداب وغیرہ یہی چیزیں تو دراصل تہذیب کو جنم دیتی ہے۔ اور تہذیب یافتہ مؤدب کہلاتے ہیں۔

جناب واصف علی واصف نے کیا خوب فرمایا تھا، باادب با نصیب بے ادب بے نصیب۔ اللہ کرے یہ باتیں ہماری سمجھ و عمل میں آئے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Check Also

Raston Ki Bandish

By Adeel Ilyas