Urdu Zuban Aur Aaj Ka Naujawan, Qasoorwar Kon?
اردو زبان اور آج کا نوجوان، قصوروار کون؟
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ بازار سے گزرتے ہوئے دکانوں کے ناموں اور ان پر لگے اشتہاروں پر نظر پڑی تو جناب حضرت داغ دہلوی صاحب کا ایک مصرعہ یاد آ گیا، "اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ"۔ اردو میں لکھے ہوئے ناموں اور تحریروں میں صریح املاء کی غلطیاں تھیں جنہیں کسی نے بھی ٹھیک کرنے کی سعی نہیں کی۔ مگر کیا کِیا جائے کہ گزرتے دور کے ساتھ ہم پاکستانیوں کی اردو بھی پاکستانی معیشت کی طرح زبوں حالی کا شکار ہے۔ اردو جیسی مہذب زبان کا اپنوں ہی کے ہاتھوں یہ حال دیکھ کر بابائے اردو سے شرمندگی و ندامت کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ ہماری نوجوان نسل اردو زبان کے رموز و اوقاف سے نابلد ہو چکی ہے اور ہمارے بزرگ اردو کو مجروح ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
آپ جب بھی بازار اور ایسی جگہوں سے گزریں جہاں اشتہارات لگے ہوں تو اُن کو لازمی پڑھیں۔ بازار سے گزرتے جن ناموں اور تحریروں پر میری نظر پڑھی ان میں زرعی ادویات کی ایک دکان کے باہر لکھا تھا "گوڑے کا نشان دیکھ کر طلب کریں"۔ اسی طرح کی تحرریں آپ کو اپنے ارگرد بھی نظر آئیں گی جیسا کہ "اپنے شہر کی شاعراوں کو صاف رکھیں"، "گاڑی کھاڑی کرنہ منا ہے"، "ہم ہیں مزلوم کی آواز"، "تیز رفتاری باعث حلاقت ہے" وغیرہ۔ ان تحریروں سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری قومی زبان کس مقام پر آ گئی ہے۔
اسی طرح آج کل سوشل میڈیا پر ویڈیو بنائی جاتی ہیں تو اس میں بولی جانے والی اردو بھی ساتھ لکھی جاتی ہے جس میں اکثر غلط املاء دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی طرح کی ایک دینی موضوع پر ویڈیو دیکھ رہا تھا تو اس میں" کلمہ کی بجائے قلمہ لکھاتھا"۔ میں جب بھی اس طرح کی اردو میں تحریر پڑھتا ہوں جس میں املاء کی غلطیاں ہوں تو دل رنجیدہ و غمگین ہو جاتاہے۔ آجکل ہماری قومی سطح پر شائع ہونے والے اردو جریدوں اور ٹی وی پر چلنے والی خبروں میں بھی کئی مواقعوں پر غلط الفاظ، املاء اور تحریریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ شائع ہونے والے مضامین، اشتہارات اور خبروں میں اردو و انگریزی کا کھلم کھلا امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔
عام عوام اور تشہیری مواد کے علاوہ اب ہمارے سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بھی اردو اور اس کی درست ادائیگی و لکھائی سے نابلد ہیں۔ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے اردو زبان تنزلی کا شکار ہو رہی ہے۔ انگریزی طرز پر نصاب اور پھر اس میں اردو نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے بچوں کو قومی زبان سے دور کرکے اردو کا مستقبل تاریخ بنایا جا رہا ہے۔ اگر ہم مدرسہ (جو اب اسکول ہوگیا ہے) میں تین دہائیاں قبل استعمال کی جانے والی زبان اور آج کی زبان کا تقابل کریں تو بہت زیادہ فرق نظر آتا ہے۔ آج "جماعت کو کلاس روم" کہا جا رہا ہے۔
اسی طرح "جماعت اول، دوم، سوم وغیرہ کو کلاس ون، ٹو، تھری" کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اسکول میں"استاد جی اور اساتذہ" کو بدل کر " ٹیچرز" کہنا عام ہوگیا ہے جبکہ "امتحانات" کی جگہ "پیپرز" اور "ششماہی و سالانہ امتحانات" کی جگہ "مڈ ٹرم ایگزام اور فائنل ائیر ایگزام" نے لے لی ہے۔ مزید تحقیق کریں تو ہوشربا حقائق سامنے آتے ہیں کہ ہمارا سارے کا سارا تعلیی نظام اردو سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اب "کتاب" کو "بُک"، "کاپیوں" کو "نوٹ بُکس"، "بستے" کو "بیگ"، "نصاب" کو "کورس" کہنا عام ہوگیا ہے۔
تعلیمی اداروں کے ساتھ اب ہمارے گھروں سے بھی اردو کا جنازہ اٹھ رہا ہے۔ ہم نے "کمرہ" کو تبدیل کرکے "بیڈ روم"، "بیٹھک" کو "ڈرائنگ روم"، "باورچی خانہ" کو "کچن"، "برتنوں" کو "کراکری"، "غسل خانہ" کو "باتھ روم" بنا دیا مگر ہمیں احساس تک نہ ہوا۔ اسی طرح گھر کے "مرکزی دروازے" کو "مین گیٹ"، "گھنٹی" کو "بیل"، "زیریں منزل" کو "بیسمنٹ"، "پہلی منزل" کو "فرسٹ فلور"، "کپڑوں کی الماری" کو "کبورڈ" بولنا ہر گھر کا عام معمول بن گیا ہے۔ گھر سے اسکول جانے پر بچے گھر والوں کو سلام اور اللہ حافظ کہتے تھے مگر اب "ہائے، ٹاٹا، گڈ بائے" جیسے الفاظ آ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ رشتوں کے لئے بولے جانے والے الفاظ بھی تبدیل ہو گئے جیسے "ابو جی/ابا جی" کی جگہ "ڈیڈ/پاپا"، "امی جی/ماں جی" کی جگہ "مام/ماما"، "خالہ/تائی/ چچی/پھوپھی" کی جگہ "آنٹی"، "ماموں /چچا/تایا/خالو/پھوپھا" کی جگہ "انکل" جیسے انگریزی کے لفظ عام ہیں۔ اب ایک طرف اردو ہے جس میں ہر رشتے کی پہچان موجود ہے مگر اسے پسِ پشت ڈال کر ہم ترقی کے نام پر اغیار کی زبان بولنے لگے جس نے رشتوں سے محبت ختم کر دی ہے۔ ہمیں اردو کو اپنے گھروں میں رائج کرنے کی اشد ضرورت ہے وگرنہ یہ ورثہ اور قومی زبان ہم سے دوسرے قومی امور کی طرح بچھڑ کر قصہِ پارنیہ بن جائے گا۔
ہماری روزمرہ کی گفتگو بھی اب اصل اردو سے دور ہو چکی ہے کیونکہ اب ہماری اردو بول چال میں انگریزی، پنجابی، ہندکو، پشتو، سرائیکی، سندھی، بلوچی اور دیگر مقامی زبانوں کی ملاؤٹ ہو چکی ہے جس کا اب ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ ایک ہمارا دور تھا کہ اگر اردو بولتے ہوئے کوئی بندہ ہندکو یا پنجابی کا لفظ استعمال کر لیتا تو اس کے لئے احساسِ شرمندگی ہوتا، مگر اب فخر بن گیا ہے۔ آج کل ہمارے گھروں میں اسی طرح کی زبان سننے کو ملتی ہے "چلو شاباش صابن سے ہینڈ واش کرکے آؤ" اور پھر آگے سے جواب آتا ہے "یس ماما/ڈیڈ ابھی واش اور ڈرائی کرکے آتا/آتی ہوں"۔ اس طرح کی گفتگو تقریباً ہر گھر میں ہو رہی ہے اور اردو زبان کا کچومر نکل رہا ہے۔ آج کل برجستہ، برمحل اور درست اردو بولنے اورسمجھنے والے خال خال ہی رہ گئے ہیں۔
اردو زبان پر پچھلی تین دہائیوں میں ایسے حملے ہوئے ہیں کہ اردو بولنے والے بھی ششدر ہیں اور انہوں نے بھی اردو سے رشتہ توڑ لیا ہے۔ جبکہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ اردو زبان پر ہونے والے ہر حملے کو ناکام بناتے۔ ہمارے گھروں میں اب نہ ہی اردو اخبار آتے ہیں اور نہ ہی اردو میں لکھی کتابیں خریدی جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے سے رابطوں کے لئے اب اردو کی بجائے انگریزی زبان استعمال ہوتی ہے۔ ہم نے خود ترقی کا نام پر اردو کو اپنے گھروں اور ملک سے نکال دیا ہے اور ہم نے وہ ترقی کہ ہے کہ نہ اردو کے رہے اور نہ ہی انگریزی کے۔
پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی اور یہی دفتری امور اور رابطوں کے لئے استعمال ہوگی۔ اب ہماری نوجوان نسل ایسی زبان بولتی ہے کہ نہ وہ اردو ہوتی ہے اور نہ ہی انگریزی بلکہ عجیب قسم کا ملغوبہ بن گئی ہے جسے فیشن اور ترقی سمجھا جا رہا ہے۔ افسوس، ہر گزرتے دور میں قومی زبان کی مضبوط دیوار میں نقب زنی کی گئ۔ ہمیں ایسے نقب زنوں کو روکنا ہوگا جو اردو زبان کی شاندار ماضی اور مضبوط فصیل میں شگاف ڈال رہے ہیں۔ ملک بھر میں جتنے بھی ادارے قومی زبان کی بقاء اور فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں انہیں مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ حکومتی سطح پر تعاون حاصل کرکے سنجیدہ اقدامات ممکن ہوں۔