Saturday, 26 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Khulasa e Quran, Terhvi Nimaz e Taraweeh

Khulasa e Quran, Terhvi Nimaz e Taraweeh

خلاصہِ قرآن، تیرہویں نمازِ تراویح

تیرہویں تراویح کا آغاز سورہ الحجر کی آیت نمبر 2 سے ہوتا ہے جس میں کافروں کی آرزؤں کا بیان ہے۔ اس سورہ کے چھٹے رکوع میں اصحاب الحجر کا ذکر ہے جو کہ قومِ ثمود کا مرکزی شہر تھا اور اس سورہ میں حجر کے باشندوں کی ہلاکت کا بیان آیا ہے۔ جب کافر وقتِ نزاع یا روزِ قیامت مسلمانوں پر اللہ کی رحمت دیکھیں گے تو وہ سمجھ جائیں گے کہ ہم گمراہی پر تھے اور آرزو کریں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے۔

آیت نمبر 9 میں حفاظتِ قرآن کا ذکر ہے اور یہ کہ قرآن کریم باقی تمام کتابوں سے افضل ترین الہامی کتاب ہے جسے اللہ نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے اتارا ہے اور تاقیامت یہی کتاب اور شریعتِ محمدی نافذالعمل رہے گی اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ عقل والوں کو اپنی قدرت کی نشانیوں کا بیان کرتے ہوئے آیت نمبر 16 میں بتاتا ہے کہ ہم نے آسمان میں بُرج (ستارے) بنائے اور اسے دیکھنے والوں کے لیے آراستہ کیا اور اسے شیطان مردود سے محفوظ کیا۔

آیت نمبر 23 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام مخلوق فنا ہونے والی ہے اور ہم ہی باقی رہنے والے ہیں بے شک ہم ہی وارث ہیں۔ آیت نمبر 24 تب نازل ہوئی جب حضور نے صفِ اول میں نماز ادا کرنے کی فضیلت بیان کی تو صحابہؓ صفِ اول حاصل کرنے میں کوشاں رہتے، جن اصحاب کے مکان مسجد سے دور تھے تو انھوں نے اپنے مکان بیچ کر مسجد کے قریب لے لئے تاکہ صفِ اول سے کبھی محروم نہ ہوں۔ تب یہ آیت ان کی تسلی کے لئے نازل ہوئی کہ ثواب نیت پر ہے اللہ تعالیٰ اگلوں کو بھی جانتا ہے اور جو عذر سے پیچھے رہ گئے ان کو بھی جانتا ہے اور اس پر کچھ مخفی نہیں۔

آیت نمبر 26 تا 42 میں اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر تخلیقِ آدم، تعظیمِ آدم، ملائک کا سجدہِ آدم، ابلیس کا انکارِ سجدہ، ابلیس کو دھتکار اور ملامت و لعنت، ابلیس کا قیامت تک مہلت مانگنا کا بیان فرمایا۔ ابلیس نے اس عظم کا ارادہ کیا کہ اے اللہ میں تیرے چنے ہوئے بندوں کے علاوہ سب کو گمراہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندوں پر تیرا شیطانی مکر و فریب نہیں چلے گا سوائے گمراہوں کے اور بے شک جنہم ان سب کا وعدہ ہے۔

آیت نمبر 43 اور 44 میں جنہم اور اس کے ساتھ دروازوں کا ذکرے ہے جن میں کچھ کے نام "جہنم"، "سَقر"، "جَحیم"، "سَعیر"، "ھاویہ"، "لَظٰی" اور "خُطمہ" ہیں۔ اسی طرح شیطان کی پیروی کرنے والے بھی سات حصوں میں منقسم ہیں۔ آیات نمبر 51 تا 75 حضرت ابراہیمؑ کی طرف فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا اور انہیں لڑکے کی بشارت دینا اور قومِ لوط پر عذاب نازل کرنے کے بارے میں بیان ہے۔ آیات نمبر 78 تا 84 میں دو قوموں "اصحاب الایکہ" (حضرت شعیبؑ کی قوم) اور"اصحاب الحجر"(حضرت صالحؑ کی قوم) کا ذکر ہے جو ظلم و زیادتی کی راہ پر چل پڑیں اور ان پر بھی گذشتہ نافرمان و سرکش قوموں کی طرح عذاب نازل ہوا۔ سورہ کے آخر میں قرآن پاک کی عظمت اور سورۃ الفاتحہ کی فضلیت کا بیان کرنے کے ساتھ مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

سورۃ النحل مکیہ (ماسوائے آیات فعاقبو بمثل سے آخیر تک مدینہ میں نازل ہوئیں) کا ترتیبِ توفیقی میں 16 اور ترتیبِ نزولی میں 70 نمبر ہے اور اس میں کل 16 رکوع اور 128 آیات ہیں۔ عربی میں شہید کی مکھی کو نحل کہتے ہیں اور آیت نمبر 68 میں اس کا ذکر ہے جو کہ سورہ کے نام کی وجہ بنی۔ اس سورہ میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت، حکمت اور وحدانیت پر دلائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بہت ذکر کیا گیا ہے اور انسان کو ان میں بار بار دعوتِ فکر دی گئی ہے تاکہ اس کے اندر شکرِ الہی اور محبتِ الہی زیادہ ہو۔

شہد کی مکھیوں کی فہم و فراست، حسن تدبیر اور ان کا نظام زندگی سب حیوانات میں ممتاز ہے اور نظم و نسق بڑی مکھی کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو تمام مکھیوں کی سردار ہوتی ہے۔ یہ حکمران مکھی اپنی رعایا کو مختلف امور پر معمور کرتی ہے اور انسانی عقل اس نظام کو دیکھ کر حیرت میں مبتالا ہو جاتی ہے جس میں عقل والوں اور سوچنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ چوپایوں کی پیدائش کے ذکرکے ساتھ ان سے انسانوں کو فوائد، راحت، باربرداری اور سواری حاصل کرنے کا ذکرے ہے۔

آیت نمبر 19 اس شخص کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے جو برا عمل لوگوں سے چھپ کر کرتا ہے اور اپنا برا عمل لوگوں پر ظاہر کرنے سے ڈرتا جبکہ اپنے رب سے نہیں ڈرتا۔ آیت نمبر 20 میں بتایا گیا ہے مسلمانوں کا معبود اللہ وحدہ لاشریک ہے جو ہر چیز کا جاننے والا ہے اور مشرکوں کے باطل معبودوں کے رد اور ان کی بے بسی و بے کسی کا ذکرہے۔ اہلِ تقویٰ و اہل ایمان پر اللہ کی عطا و نعمت رہتی ہے اوربوقتِ وفات فرشتے انھیں سلام کرتے اور پاکیزہ روحوں کا استقبال کرے ہیں۔ آیت نمبر 57 میں بیان ہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر مشرکوں کے چہرے کالے پڑجاتے ہیں اور وہ بیٹی کی پیدائش کو بری خبر جانتے ہیں اور وہ اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں۔ آیت نمبر 89 میں امتوں اور ان پر گواہوں کا ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "جس دن ہم ہر امت میں انہی میں سے ان کے مقابلے میں گواہ کھڑا کریں گے اور تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے"۔

سورہ نحل کی آیت نمبر 90 جامع ترین آیت ہے جسے تقریباََ ہر خطبے میں پڑھا جاتا ہے اوراس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند جملوں میں سمو دیا گیا ہے۔ اس میں بہت اہم باتوں کا حکم دیا گیا ہے عدل (معمالات، فرائض و واجبات میں انصاف و برابری)، احسان (ہر اچھا عمل انسان و حیوان کے ساتھ) اور قرابت داروں کو دینے کا حکم (جس سے دہرا اجر ملتا ہے)، برائی (جو شریعت کی نظر میں قبیح ہو)، بے حیائی (ایسا عمل جس سے قباحت واضح ہو جیسے زنا، لواطت، شراب، جوا وغیرہ) اور ظلم و سرکشی (انسان کی عزت و حرمت، مال و جان پر زیادتی) سے روکنا۔ یہ تمام احکامات انسان کی انفرادی اوراجتماعی زندگی کے لیے مکمل نسخہ اورضابطہ اخلاق ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ عدل یہ ہے کہ آدمی لاَاِلہ اِلاِ اللہ کی گواہی دے اور احسان فرائض کو ادا کرنے کا نام ہے۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ عہدوں کو پورا کرنے، جھوٹ بولنے، بہتان باندھنے اور قسموں کو توڑنے سے باز رہنے کا حکم دیا ہے اور واضح کر دیا کہ عہد شکنی بڑا گناہ ہے۔ انسان کو دنیاوی نفع کے لیے دھوکہ دہی، قسمیں کھانے کو معیوب قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور اس عمل کو ایسی عورت سے تشبیہ دی گئی ہے جو سوت کاتتی ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔

آیت نمبر 106 میں حالتِ اکراہ میں کلمہِ کفر کہنے سے متعلق چار شرعی مسائل بیان فرمائے ہیں اور یہ آیت حضرت عمار بن یاسرؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ آیت نمبر 119 میں ان لوگوں کا ذکرہے جو نادانی میں گناہ کر دیتے ہیں اور جب ان کو احساس ہوتا ہے تو وہ سچے دل سے توبہ کرتے ہیں، سنور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے بعد ضرور بخشنے والاہے۔ ابراہیمؑ کے بارے میں فرمایا کہ وہ اللہ کے فرمانبردار بندے تھے اور مشرک نہ تھے اس لیے ہم نے دنیا میں ان کو بھلائی دی اور آخرت میں شایانِ قرب ہیں۔ دعوتِ دین کے اسلوب کو بیان فرمایا اور کہا کہ لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ اللہ کی راہ کی طرف بلاؤ جب تمہیں اس میں مشکلات پیش آئیں تو اس پر صبر و تحمل سے کام لو۔

سورہ کی آخری آیات میں اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے محبوب تم صبر کرو تو کہ اللہ کی توفیق سے ہی ہے۔ ا گر وہ ایمان نہ لائیں تو ان کا غم نہ کھاؤ اور ان کے فریبوں سے دل تنگ نہ کرو۔ بے شک اللہ ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں۔ سورہ نحل کی یہ آخری تین آیات انتہائی شاندار اور جامع احکامات پر مشتمل ہیں اور مسلمانوں کو انہیں اپنی زندگی کا وظیفہ بنالینا چاہیے اور بزرگانِ دین اس کی وصیت کیا کرتے تھے۔

Check Also

False Flag Operation

By Muhammad Aamir Iqbal