Friday, 25 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Khulasa e Quran, Daswi Nimaz e Taraweeh

Khulasa e Quran, Daswi Nimaz e Taraweeh

خلاصہِ قرآن، دسویں نمازِ تراویح

آج کی تراویح کا آغاز گیارہویں پارہ اور سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 94 سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو غیب کی خبر دے کر منافقین کے حیلے بہانوں کو آشکار کیا کہ جب تم جہاد (غزوہِ تبوک) سے واپس لوٹ کے آؤ گئے تو منافقین باطل عذر پیش کریں گے اورتم ان سے کہہ دو کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہاری خبر دے دی ہے۔

گنوار (جو مجالسِ علم اور صحبتِ علماء سے دور رہتے ہوں)کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو تاوان سمجھتے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب مسلمانوں کمزور ہوکر مغلوب ہو جائیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی راہ میں اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ ان سے اللہ اور اس کا رسول راضی ہو جائیں اور حضور ان کے لیے دعائے مغفرت فرماتے ہیں۔ جنھوں نے اللہ پر ایمان لانے میں پہل کی اور نیکی کی اتباع کی تو ان کے لیے جنت کی دائمی نعمتیں ہیں۔ آیت نمبر 103 میں حضور کا فرمایا گیا کہ مسلمانوں کے مالوں سے زکوۃ لیں تاکہ ان کے مال پاک ہو جائیں۔

آیت نمبر107 تا 110 میں منافقین کی ایک بڑی سازش کا ذکر ہے کہ کس طرح انھوں نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی جسے اللہ تعالیٰ نے ناکام بنا دیا۔ مسلمانوں نے مسجدِ قباء بنا کر اس میں اللہ کی عبادت کرنا شروع کر دی تو منافقوں نے مسجدِ ضرار بنا ڈالی جس کا افتتاح وہ حضور سے کروانا چاہتے تھے۔ درپردہ وہ انتشار پھیلانا چاہتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے حضور کا اس مسجد میں جانے سے منع فرما دیا۔ مومن کی نشانی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہِ مومن اپنی جان و مال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور جنت کے حق دار بن جاتے ہیں اور جو اللہ کی مرضی کے خلاف چلتے ہیں تو وہ امانت میں خیانت کرتے ہیں۔

آیت نمبر 112میں اہلِ ایمان کے بارے میں بیان ہے کہ جو اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں تو یہ لو گ (توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، سراہنے والے، روزے والے، رکوع والے، سجدے والے، بھلائی کو فروغ دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے) جنتی ہیں۔ آیت نمبر 118 میں ان تین مخلصوں (کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، مرارہ بن ربیع رضوان اللہ اجمٰعین) کا ذکر ہے جو بغیر کسی عذر کے غزوہِ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے۔ ان کے رشتہ داروں نے ان کے جہاد سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان سے کلام ترک کر دیااور ان کو اس حال میں پچاس دن گزر گئے۔ اس وجہ سے یہ لوگ بیقرار، پریشان، رنج و غم اور اضطراب میں رہتے اور اپنی جانوں سے تنگ آ گئے تھے مگر انھوں نے اسلام کا دامن نہ چھوڑا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما کر وحی کے ذریعے ان کی برائت فرمائی(اَن اللہَ ھُوَ التواب ُالرحیم)۔ مسلمانوں کو بتایا کہ اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔

آیت نمبر 122 میں مسلمانوں کی ایک جماعت (ہر علاقے اور طبقۂ زندگی) کو علم دین کے حصول کے لیے گھروں سے نکلنے کی ترغیب دی تاکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کریں اور پھر اپنی قوم کے لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں۔ سورت کے آخر میں حضور کی نعت بیان فرمائی گئی اور ارشاد فرمایا "بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرما دوکہ مجھے اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اوروہ بڑے عرش کا ملک ہے"۔ اس آخری آیت میں حضور کی میلاد کا تذکرہ ہو رہا ہے جس سے محافلِ میلاد کا انعقاد ثابت ہوتا ہے۔

سورۃ یونس ترتیبِ توفیقی کے لحاظ سے 10 اور ترتیبِ نزولی کے لحاظ سے 51 نمبر پر ہے جس میں 11 رکوع اور 109 آیات ہیں جو کہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ماسوائے تین آیات کے "فان کنت فی شک" سے سورت کا آغاز حروفِ مقطعات "الٓرٰ" سے ہوتا ہے اور ان لوگوں کا حال بیان فرمایاگیا جو تعجب کرتے کہ کیسے ایک مرد (بشر) پر وحی نازل ہوئی بیشک یہ تو (نعوذباللہ) کھلا جادوگر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں نظامِ کائنات اور قدرتِ الہیہ پر غوروفکر کی دعوت دی کہ کس طرح آسمان بغیر ستون کے ہے اور زمین کو چلنے کے لیے ہموارکیا، سورج کو جھگمگتا، چاند کو چمکتا ہوا کرکے منزلیں ٹھہرا دیں۔

بے شک وہ پہلی بار بناتا ہے اور پھر فنا کے بعد پھر دوبارہ بنائے گا وہی رات کو دن اور دن کو رات میں بدلتا ہے۔ جو اس کا انکاری ہوا اسکے لیے (کفار) پینے کا کھولتا پانی ہے اور جنھوں نے اچھے کام کئے ان کے انصاف کا صلہ۔ اللہ تعالیٰ تم پربہت کریم ہے اور تم اس کی قدرتوں پر غور کرو جیسا کہ دریاؤں میں کشتیوں کا چلنا، بارشوں کے بعد پودوں اور سبزیوں کا اگناوغیرہ کھلی نشانیاں ہیں۔ اہلِ مکہ پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں اور جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو اللہ کی نافرمانی شروع کر دیتے ہیں۔ دنیا کو آخرت کی کھیتی بتایا گیا کہ جو یہاں اگاو، گئے وہی آخرت میں کاٹوگئے اس لیے اس دنیا کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ سے نیک اعمال کرلوتاکہ کل حساب و کتاب میں آسانی ہو۔ جو اللہ کی سلامتی کی راہ پر چلتے ہوئے اللہ کی حکم پر لبیک کہتے ہیں ان کے لیے بہترین بدلہ ہے اور روزِ قیامت ان کے چہرے ذلت و رسوائی سے محفوظ رہیں گے اور جو اسکے برعکس کریں گے ان کے لیے درد ناک عذاب تیار ہے۔

قرآن کریم کی شان کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے پاس ایک عظیم نصیحت آئی جو دلوں کی بیماریوں سے شفا، ہدایت و رحمت ہے۔ یہ کتاب اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے اس سب کی تفصیل اس میں موجود ہے۔ اللہ کے دوستوں (اولیاء اللہ) کی شان کا بیان ہے کہ انہیں نہ کسی آنے والی بات کا خوف ہوگا اور نہ گزری ہوئی بات کا ملال اور قیامت کے دن وہ اپنی پسند کی نعمتوں کے اندر ہوں گے۔ حضرت نوحؑ کا مختصر واقع ہے کہ انھوں نے سرکش و نافرمان سرداروں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ پر توکل کیا جس کی وجہ سے انہیں اور ان کے ماننے والوں کو کشتی میں سوار کرکے بچا لیا گیا جبکہ منافقین اور مشرکین کو طوفانِ نوح میں غرق کرکے نشانِ عبرت بنادیا ہے۔ آگے حضرت موسیؑ و ہارونؑ اور فرعون کا واقع ہے کہ کیسے فرعون کے لشکر کو غرق کر دیا گیا۔

سورت کے آخر میں حضرت یونسؑ کا واقعہ بیان کیا گیا جو اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہو کر اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو یقینی آنے کو دیکھ کر "نینوی"کی سرزمین چھوڑ کر چلے گئے۔ جب وہ کشتی پر سوار ہو گئے تو بیچ سمندر پہنچ کر طوفان آ گیا تو قرعہ ڈالا گیا کہ یقیناََ اپنے آقا سے بھاگا ہوا غلام آیا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ سب پریشانی لاحق ہوئی ہے۔ تین بار قرعہ ڈالا گیا اور تینوں بار نام حضرت یونسؑ کا ہی آیاتو اکشتی والوں نے ان کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک بڑی مچھلی آئی اور اس نے حضرت یونسؑ کو نگل لیا۔ حضرت یونسؑ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مچھلی کے پیٹ مین زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی، توبہ کی۔ چند روز بعد مچھلی نے انہیں ساحلِ سمندر پر اُگل دیا۔

آپ کی قوم آپ کو ڈھونڈنے لگی مگر آپ کو نہ پایا اور پھر سب (مرد، عورتیں اور بچے) صحرا کی طرف نکل گئے، آہ وزاری اور توبہ استغفار کی، سچے دل سے ایمان قبول کر لیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ٹال دیا۔ سورۃ یونس کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "تم فرماؤ! اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آیا تو جو راہ پر آیا تو وہ اپنے بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا وہ اپنے برے کو بہکا اور کچھ میں تم پر نگہبان نہیں اور اس پر چلو جوتم پر وحی ہوتی ہے اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ حکم فرمائے اور وہ سب سے بہتر حکم فرمانے والا ہے۔

سورۃ ھود کا نزول مکہ میں ہوا ماسوائے ایک آیت کہ "وَاَقِم الصلوۃ طَرَفیِ النھار"، ترتیبِ توفیقی میں 11 اور ترتیبِ نزولی میں 52 نمبر پر ہے جس میں کل 10 رکوع اور 123 آیات ہیں۔ اس کا آغاز حروفِ مقطعات "الٓرٰ" سے ہوتا ہے اور اس سورت میں گزشتہ اقوام پر نازل ہونے والے قہرالہی، مختلف قسم کے عذابوں، قیامت، حساب و کتاب اور جنت و دوزخ کے بیان ہے۔ حضورکے ریش مبارک کے چند بال مبارک سفید ہو گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے بطورِ اظہارِ رنج عرض کیا یارسول اللہ آپ بوڑھے ہو گئے؟ تو آقا نے فرمایا مجھے سورۃ ھود، سورۃ واقعہ، سورۃ عم یتساء لون اور سورۃ التکویر (اذا الشمسُ کورت) نے بوڑھا کر دیا۔ اسی سورت کی آیات نمبر 50 سے 60 تک اللہ کے نبی حضرت ہودؑ اور انکی قوم کے بیان ہے جس کی نسبت سے اس کا نام سورۃ ھود رکھا گیا۔

سورت کا آغاز قرآنِ کریم کی عظمت کے بیان سے ہوتا ہے کہ یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں اور کوئی کتاب اس کی ناسخ نہیں جبکہ یہ دوسری کتابوں اور شریعتوں کی ناسخ ہے۔ بندگی نہ کرو مگر اللہ کی بے شک میں تمہارے لیے اسکی طرف سے ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں۔ اپنے رب سے معافی مانگو، اسکی طرف توبہ کروجس کا تمہیں بہت اچھا فائدہ ملے گا اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہیں بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں کیونکہ تمہیں اسی کی طرف پھرناہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چھپااور ظاہر جانتا ہے(اخنس بن شریق بہت شیریں گفتار شخص تھا، حضور کی خدمت میں آکر بہت خوشامد کی باتیں کرتامگر دل میں بغض و عداوت چھپائے رکھتا) اور بیشک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے۔

Check Also

Ambia o Ulema Ki Sar Zameen

By Dawood Ur Rahman