Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Professor Inam Ul Haq
  4. Mohtaram Anwar Ul Haq, Wazir e Azam Ke Baja Farmaya, Magar

Mohtaram Anwar Ul Haq, Wazir e Azam Ke Baja Farmaya, Magar

محترم انوار الحق، وزیر اعظم نے بجا فرمایا، مگر

سوشل میڈیا ذرائع کے مطابق، نڈر، مہمان نواز، الفت و محبت کا نشان عوام کا علاقے راولاکوٹ میں آزاد جموں وکشمیر یونین آف کالمسٹس کی طرف سے ان کالم نگاروں کے اعزاز میں شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا جنہیں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان کی مختلف آرگنائزیشن نے گولڈ میڈل سے نواز کر ان کے حوصلے بلند کئے، جن میں پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی، پروفیسر صغیر آسی، مرزا جمیل احمد شاہد، راجہ شبیر، سید زاہد حسین نعیمی اور نوجوان کالم نگار و مصنف عابد ضمیر ہاشمی شامل ہیں، انہیں گولڈ میڈل ملنے پر آزاد جموں و کشمیر یونین آف کالمسٹس کی طرف سے اعزازی شلیڈز عطاء کی گئیں۔ جس میں سابق وزیرِ حکومت سردار عابد حسین عابد، ڈپٹی کمشنر پونچھ، سردار عامر، تحصیل دار پونچھ اور دیگر اہم شخصیات کے علاوہ آزاد کشمیر کے اضلاع سے معروف کالم نویسوں، اہل کتب، اہلِ قلم، میڈیا نمائندگان، عوامِ الناس نے شرکت کی۔

میں آزاد جموں و کشمیر یونین آف کالمسٹس کی چیئرپرسن، سر زمین راولاکوٹ کی ایک بہادر خاتون بیٹی سدرہ ارم کبیر اور ان کی تمام ٹیم کواس تاریخی کارنامہ پر دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، حالانکہ یہ کام حکومتِ آزاد کشمیر کا تھا کہ وہ ایسے ہیروز کی حوصلہ افزائی فرماتی، مگر ایسا ہوا نہ ہی دور دور تک امید کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ میری ناقص معلومات اور زندگی کے تجربے سے یہ امر عیاں ہے کہ فلحال حکومت آزاد کشمیر کا کوئی ایسا پلیٹ فورم موجود نہیں جو بلاتفریق قوم، قبیلہ، علاقہ، خالص میرٹ پر اہلِ کتاب، مصنفیں اور اہل علم اور میڈیا ہاوسز کے معاشرتی مثالی کردار پر ان کی بمطابق میرٹ حوصلہ افزائی کرےتاکہ معاشرے میں اچھائی کو فروغ مل سکے۔

یہ ہم سب کے لئے حوصلہ شکنی کے مترادف ہے کہ وہ بیس کیمپ کی حکومت جس کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی فرمائے ان کی کتب کو پروموٹ کیا جائے تاکہ ان افراد کی داد رسی ہو اور ان کے جذبات کو تقویت ملے، مزید معاشرے میں ایسے افراد پیدا ہوں جو بھارت کا مکروہ چہرہ دُنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔ لیکن ایسا نہ ہونے کے باعث ایسے افراد جو قرض اٹھا کر کتب کی اشاعت کرتے، ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جس سے معاشرے میں برائیاں جنم لیتی ہیں، تب معاشرہ انگار بنتا ہے۔ حکومتی قابلِ قدر سیکرٹری صاحبان ہوں یا حکومتی کوئی شخصیت وہ بے شک اُردو کے الفاظ تک غلط لکھتے، پڑھتے ہوں، مگر ان کی تعریف ضرور کی جاتی ہے۔

ہمارے ادارے جن کا مقصدہی نسلِ نو کی تربیت ہے وہ بھی عہدے دیکھ کر کر ان کے گن گانے لگے، جس کے باعث میرٹ کا تصور ختم ہوتا جارہا۔ جس دور میں راقم الحروف اور ہمارے رفقاء نے تعلیمی فرائض سر انجام دئے ان ایام میں پانچویں جماعت کے بچے کی اُردو آج کا ایم ایس سٹوڈنٹ مقابلہ نہیں کر سکتا۔ چوں کہ اس وقت عہدے دیکھکر نہیں بلکہ خالص میرٹ پر مقالہ جات، تھیسز اور مقالہ جات کا دفاع کیا جاتا تھا۔ آج اس کے برعکس اکثر جامعات میں اگر طالب علم نے حکومتی شخصیات پر مقالہ لکھا ہے تو ان کا دفاع بھی مکمل ہے۔ یہ سٹوڈنٹس کل نہ صرف ہمارے بلکہ ادارے کے لئے باعث شرمندگی ہوتے ہیں۔

آزاد جموں وکشمیر یونین آف کالمسٹس نے بہترین مثال قائم کی ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ہمارے اسلام میں بھی اچھائی کو پروموٹ کئے جانے کا حکم ہے۔ برائی کی حوصلہ شکنی اور اچھائی کی حوصلہ افزائی کرنا ہی مومن بندے کی پہچان ہے اس بہترین عمل پر پوليس افسر بھی اچھا دل رکھتے ہیں۔

کوئی اچھا کام انجام دینے والے کی حوصلہ افزائی اوراس کی تحسین وتوصیف بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ رویہ معاشرہ کے دوسرے لوگوں کو بھی اس طرح کے کاموں کی طرف متوجہ کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس کے برعکس تنگ نظری یا خشک مزاجی کے سبب حوصلہ شکنی کا عمل نہ صرف یہ کہ ماحول میں اختلاف وانتشار اور نااتفاقی کا سبب بن کرمعاشرے کو خراب کرے گا، بلکہ اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کی تعدادکم ہوجائے گی جو کسی نہ کسی درجہ میں دعوت دین، فلاح و بہبود اور معاشرے کی تعلیم وتربیت کی خدمات انجام دیتے ہیں۔

کسی شخص کا کوئی کارخیر اگر ہمیں معلوم ہو، تو اس کی تعریف و تحسین کرنی چاہیے، اس کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرہ میں عمل صالح کا ماحول بنے گا اور دوسرے لوگ بھی اچھے کام انجام دینے کی طرف مائل ہوں گے۔ انسان کا مزاج ہے کہ وہ کوئی کام انجام دیتاہے تواس کا بدلہ چاہتاہے، خواہ کسی بھی شکل میں ہو، وہ بدلہ دکھائی دینے والی چیز ہو یا نہ دکھائی دینے والی۔ اس سے معاشرے میں اچھائی کو فروغ ملتا ہے، برائی ختم ہوتی ہے۔

میں بطورِ ریاست کا ادنی شہری اور طالب علم حکومت وقت اور اربابِ اختیار سے عرض کرتا ہوں کہ اگر ہم نے واقعی بھارت کے مکروہ چہرہ کو بے نقاب کرنا ہے تو اب جنگیں جو سب سے خطرنا ک ہیں وہ قلم کی جنگیں ہیں۔ ایسے میں ہمیں اہل کتاب، اہل قلم، میڈیا کے کردار کو تحسین پیش کی جانی چاہیے ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کے لئے پاکستان کی طرز پر ایک علمی و ادبی کمیٹی قائم ہونی چایئے جو بلاتفریق میرٹ پر کتب کے مواد، ان کے ریاست کے طالب علموں پر اثرات، معاشرتی کردار پر منتخب کریں اور انہیں سالانہ قومی ایورڈ سے نوازا جائے اس سے جہاں کشمیر میں اہل کتب کی حوصلہ افزائی ہوگی وہاں ہی تعلیم میں بھی بہتری آئے گی۔ کیوں کہ اگر ایسے ہی تعلق و عہدہ پر تعلیمی ڈگریاں ملتی رہیں تو ہمارے سکالر بھی کل دو لفظ لکھنے سے قاصر ہوں گے انہیں اپنی تعلیم کو ظاہر کرنے کے لئے کافی مشکلات اور شرمندگی کا سامناہوگا۔ جس کے ذمہ دار وہ نہیں ہم ہوں گے۔

میرٹ پر سودا بازی اور تعلیم کے معیار پر سمجھوتہ نسل کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے اس حوالہ سے بالکل درست فرمایا کہ: "میں نے جب عہدہ سنبھالا تو ہماری پانچواں جامعات اور میڈیکل کالجز خسارے میں تھے، ہماری یونیورسٹیوں سے ایم ایس سی کرنے والے اُردو میں درخواست نہیں لکھ سکتے، ہم کیا پروڈیوس کر رہے ہیں"۔ یہ بات جنابِ وزیر اعظم کی بالکل درست اور قابلِ غور ہے، لیکن جب ہم اس طرح کے اہلِ کتاب جن کی ادبی کاوشوں کو پاکستان اور بیرون ملک پذیرائی مل رہی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو پھر ایسی ہی نسل تیار ہوگی۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan