Dr. Maqsood Jafri, Jamea Kashmir Aur Maqsad e Hayat
ڈاکٹر مقصود جعفری، جامعہ کشمیر اور "مقصدِ حیات"
آزاد کشمیر قدرتی حسن کے اعتبار سے دُنیا کی جنت مانا جاتا ہے۔ کشمیر کی قابلِ فخر تاریخ ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وادی کشمیر میں ادباء، شعرا، مصنفین کی ایک تاریخ ہے۔ وادی کشمیر کے مایہ ناز شاعرہفت زباں، مفکر، دانشور، محقق اور ادیب جناب پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری جن کا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔ ایسی شخصیات ہمارے لئے باعثِ اعزاز ہیں۔ ایسے افراد کسی علاقہ قوم یا خاندان کا نہیں، بلکہ پورے خطے کا فخر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب امریکا میں کئی یونیورسٹیوں میں تقابلی عالمی ادبیات پر لیکچر دے چکے ہیں اس کے علاوہ آپ کی اس وقت تک انگریزی، فارسی اور اردو زبان میں شاعری، فلسفہ، سیاسیات، اسلام، علامہ اقبال، کشمیر، عالمی سیاسیات اور عالمی ادبیات پر 32 کتابیں شائع ہو چُکی ہیں۔ آپ سابق وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سردار محمد عبد القیوم خان کے مشیر اور سابق وزیرِ اعظم پاکستان محترمہ بینظیر کے Political Research Cell کے انچارج اور مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
آپ عالمی سطح کے دانشور ہیں۔ وہ پاکستان اور وادی کشمیر کی مختلف جامعات میں ہونے والے سیمینار، تقریبات میں شرکت فرماتے ہیں۔ ان کی ہزاروں میں سٹوڈنٹس موجود ہیں، جو ان کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پر لکھنے کے لئے مجھ طالب علم کے پاس الفاظ نہیں ہیں، البتہ ان کی علمی کاوشیں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔
یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر، کشمیر کی سب سے پرانی اور مستند تعلیمی درسگا ہ ہے۔ باقی خطہ کشمیر کی جامعات اسی جامعہ کے کیمپسز ہوا کرتے تھے، جنہیں اب مکمل جامعات کا درجہ دیا گیا ہے جس سے جملہ جامعات شدید مالی مسائل سے دورچار ہیں۔ بہرکیف یہ ایک الگ داستان ہے، مگر جامعہ کشمیر کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بمطابق میڈیا رپورٹس مایہ ناز ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر ناصر جمال خٹک، اب جامعہ کشمیر کے وائس چانسلر ہیں۔ اُمید ہے کہ جامعہ ترقی کی منازل طے کرے گی۔
پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری کی وادی کشمیر کی سب سے بڑی درسگاہ کے ایک پروگرام کی کہانی اُن کی زبانی: "عابد ضمیر ہاشمی: دانشورِ ضمیِر زندہ، خطیبِ عصر، اقبال شناس اور صحافی شورش کاشمیری کہا کرتے تھے "عصمتِ قلم عصمتِ مادر کا درجہ رکھتی ہے"۔ قرآنِ مجید میں اللہ نے قلم کو قسم کھائی ہے۔ اس بات سے"حُرمتِ قلم" اور"عصمتِ قلم" کا اندازہ ہوتا ہے۔ عابد ضمیر ہاشمی"مردِ ضمیرِ زندہ" ہیں۔ انہوں نے "مقصدِ حیات" لکھ کر علمی، تحقیقی، ادبی اور مذہبی سطح پر قابلِ صد تعریف خدمت انجام دی ہے۔ یہ کتاب اُن کے کالموں کا مجموعہ ہے جو متعدّد اخبارات میں شائع ہو چُکے ہیں۔
گزشتہ سال میں مظفر آباد ایک قومی اجلاس میں شرکت کے لیے گیا تو چیرمین شعبہ اردو آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد ڈاکٹر میر یوسف میر صاحب نے میرے اعزاز میں یونیورسٹی میں تقریب کا اہتمام کیا۔ جس میں شہر کی نامور ادبی شخصیّات نے شرکت کی۔ عابد ضمیر ہاشمی بھی شریکِ محفل تھے۔ اُن سے ملاقات اور گفتگو کرکے یہ احساس ہوا کہ وہ جوانی میں ہی تحقیق اور تنقید کی کئی منازل طے کر چکے ہیں۔ ایک محقّق اور نکتہ رس ہونے کے علاؤہ وہ نہایت خلیق اور سنجیدہ شخصیّت ہیں۔ اُنہوں نے اپنے کالموں کا مجموعہ"مقصدِ حیات" دیا۔ اس کے مطالعہ سے یہ راز افشا ہوا کہ اُن کا"صریرِ خامہ" واقعی"نوائے سروش" ہے۔ یہ کتاب محقّقین کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ ڈاکٹر مقصود جعفری، اسلام آباد، 31 جولائی 2025"۔
یہاں ایک بات قارہین کی نذر کرنا چاہتا ہوں کہ جس کتاب کو اتنی بڑی علمی و ادبی شخصیات نعمتِ غیر مترقبہ قرار دیں۔ اس سے قبل کئی سکالرز اس کتاب سے مستفید ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کتاب میں مواد ہو تو وہ اپنی جگہ بنا ہی لیتی ہے۔ آزاد کشمیر کی کم کتب ایسی ہوں گی جن کو اس قدر پذیرائی ملی ہوگی۔ اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی محنت کرنے والوں کو ناکام نہیں فرماتا۔ تحقیق، علم کسی عہدے، سٹیٹس کا محتاج نہیں۔ وہ علم، کتاب سب سے اچھی مانی جاتی ہے جس سے خلقِ خدا مستفید ہوں۔ ایسی کتب کی ہمارے معاشرے کو ضرورت ہے۔ ایسی کتب اور ان کے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہی ہماری نسل کو کتب سے دوبارہ جوڑ سکتی ہے۔ اچھائی ہمیشہ حوصلہ افزائی سے بڑھا ئی جاتی ہے۔
تحقیق کسی بھی معاشرے کی علمی، سماجی، سائنسی اور تہذیبی ترقی کی بنیاد ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ عملی زندگی کے پیچیدہ مسائل کے قابلِ عمل حل بھی سامنے آتے ہیں۔ حکومت، تعلیمی ادارے اور سائنسی مراکز تحقیق کی روشنی میں پالیسیاں اور اقدامات طے کرتے ہیں۔ تحقیق انسان میں شعور، تجزیہ اور تنقیدی سوچ کو بیدار کرتی ہے، جو ایک ترقی یافتہ اور باخبر معاشرے کی پہچان ہے۔ تحقیق کسی بھی قوم کی ترقی، بقا اور فکری بالیدگی کی بنیاد ہے۔ آج کا دور علم، ٹیکنالوجی اور تجزیے کا ہے اور تحقیق ان تمام میدانوں میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ قومیں جو تحقیق کو اپناتی ہیں، ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتی ہیں، جبکہ تحقیق سے غفلت برتنے والی اقوام تنزلی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
تحقیق صرف ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ایک فکری سفر، جستجو اور انسانیت کی خدمت کا عمل ہے۔ ترقی یافتہ اقوام تحقیق کو زندگی کا لازمی حصہ بناتی ہیں، جبکہ پسماندہ معاشرے اس سے غفلت برتتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ تحقیق کو فروغ دیں تاکہ ہمارا معاشرہ بھی علم، ترقی اور تہذیب کی راہوں پر گامزن ہو۔ تحقیق صرف سائنسی تجربات یا جامعات تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک سوچ، ایک طرزِ فکر اور حقیقت تک پہنچنے کا منظم ذریعہ ہے۔ تعلیم و تدریس، معیشت، طب، زراعت، زبان، ادب، مذہب، سماج، ہر شعبہ تحقیق کا محتاج ہے۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم تحقیق کو صرف ایک نصابی ضرورت نہیں، بلکہ قومی ذمہ داری سمجھیں۔ کیونکہ تحقیق ہی وہ قوت ہے جو ایک فرد کو مفکر، ایک ادارے کو مرکز علم اور ایک قوم کو رہنما بناتی ہے۔ کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ "تحقیق وہ آئینہ ہے جس میں قومیں اپنا مستقبل دیکھتی ہیں"۔

