Monday, 21 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zeashan Butt
  4. Tarbiyat e Aulad (2)

Tarbiyat e Aulad (2)

تربیتِ اولاد (2)

آج کے اس پرفتن دور میں تقریباََ تمام والدین سوشل میڈیا کی یلغار سے متعلق پریشانی میں مبتلا ہیں۔ دن بہ دن نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کن لوگوں کے بچے بگڑتے ہیں؟

تربیت اولاد آج کے دور کا سب سے اہم موضوع ہے۔ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہماری نوجوان نسل کس سمت جا رہی ہے؟ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ بچوں کی اصلاح اور کردار سازی میں اپنا حصہ ڈالوں۔ بچوں کی اصلاح کے حوالے سے یہ میری چھٹی کاوش ہے۔

ڈویژنل پبلک سکول و کالج میں جہاں بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں پرتوجہ دی جاتی ہے وہاں بچوں کی کردار سازی پر بھی خصوصی فوکس کیا جاتا ہے۔ بچوں کی کردار سازی کے حوالے سے گزشتہ دنوں میری پروفیسر ایم اے راز سے طویل نشست رہی۔ آصف راز صاحب میرے ہم پیشہ بھی ہیں اور میری ان سے درینہ رفاقت ہے۔ وہ خود ایک ادبی شخصیت ہیں۔ شاعرو مزاح نگار ہونے کے ساتھ ساتھ انسان شناسی ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔

پروفیسر صاحب کم و بیش تین عشروں سے تعلیمی شعبے سے وابستہ ہیں اور سونے پہ سہاگہ ڈی پی ایس میں بچوں کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی ذمہ داریاں بھی موصوف کو تفویض کی گئی ہیں۔ ان کا روزانہ کی بنیاد پر ایسے ہی بچوں اور ان کے والدین سے واسطہ پڑتا ہے۔ راقم سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ بچے بگڑنے کی شرح ان گھروں کی ہوتی ہے جن کے والد اکثر نوکری کے سلسلے میں بیرون ملک یا بیرون شہروں ہوتے ہیں یا دیگر وجوہات کی بنا پر والد محترم لمبے عرصے تک گھر سے دور رہتے ہیں۔

ایسے گھروں کی خاتون خانہ یا تو بچوں کو اکیلے سنبھالتی ہے یا اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہے۔ جو خواتین بچوں کو الگ لے کر رہتی ہیں تو آج کے دور میں خواتین والدہ کا کردار ہی نبھا دیں تو وہ غنیمت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اولاد کے ساتھ ساتھ مائیں بھی سوشل میڈیا زدہ ہوگئی ہیں۔ ان کو بھی سوشل میڈیا کی لت پڑ گئی ہے۔ ایسی سوشل میڈیا زدہ خواتین کو اپنی اولاد سے زیادہ اس بات کی فکر کھائی جاتی ہے کہ ان کے پسندیدہ ڈرامے کی کوئی قسط یا ساس بہو کے جھگڑے کاکوئی سین رہ نہ ہو جاے۔ ایسی خواتین سے شوہر کی عدم موجودگی میں والد کا کردار نبھانے کی توقع کرنا تو فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس لیے عدم توجہ کی وجہ سے ان کی اولاد بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے۔

کھلانا سونے کا نوالہ اور دیکھنا شیر کی آنکھ سے، یہ سہولت ان بچوں کو نہیں مل پاتی۔ اس کے علاوہ اگر وہ اپنے والدین کے ساتھ یعنی بچے اپنے نانکے میں رہتے ہیں تو خوش قسمتی سے اگر ماموں یا خالہ سخت مزاج مل جائے بصورت دیگر نانی نانا ڈھیل دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں اور اس گھر میں اگر پہلے سے بچے موجود ہوں تو وہاں مثال ایک اکیلا اور دو گیارہ کی ہے۔ یہ بچے یا تو بہت سختی یا بہت ہی نرمی کی بنا پر مثبت، ذمہ دار اور مہذب شہری نہیں بن پاتے۔

میرے والد گرامی تربیت اولاد کے حوالے سے ایک مثال دیا کرتے ہیں کہ بچہ سپرنگ کی مانند ہوتا ہے دبانا اہم بات نہیں دبائے رکھنا اہم بات ہے اس لیے سپرنگ میرا مطلب ہے بچے کو اتنا دبائیں یعنی سختی کریں کہ کل چھوڑیں تو سنبھالا بھی جا سکے۔ اس کے علاوہ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ والد کو بلاؤ تو والدہ فوراً آجاتی ہیں کہ ان کے والد مصروف ہیں۔ جب والد سے رابطہ کیا جائے تو وہ لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں یا والدہ آ کر کہتی ہیں ان کے والد بہت سخت ہیں اگر انہیں پتہ چلا تو بہت سختی سے پیش آئیں گے پھر ایسی عورتوں کو یہ سمجھانا کہ ان بچوں کے لیے یہ سختی بہت ضروری ہے ایسے ہی ہے جیسے بھینس کےآگے بین بجانا۔

ایک والدہ ان کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرا بیٹا بہت ہی غصے والا ہے، اس کے مزاج کے خلاف بات ہو تو برداشت نہیں کرتا۔ حضرت نے کہا میں اسی مرض کا علاج کرتا ہوں۔ مزاج کے خلاف بات کو برداشت کرنا ہی تو اصل چیز ہے اور یہاں سے ہی صبر و تحمل اور قوت برداشت کا پتہ چلتا ہے۔ بھولے بھالے والدین کے لیے جہاں صاحب اولاد ہونا ایک بڑی نعمت ہے وہاں ان کی اولاد ان کے لیے آزمائش بھی ہے۔

آپ کے جانے کے بعد بھی آپ کو زندہ رکھیں گے اگر آپ چاہتے ہیں کہ بعد میں آپ کو ان کی وجہ سے گالیاں نہ پڑیں تو ابھی عملی اقدامات کیے جائیں اگر میرے یہ الفاظ آپ کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہے تو معاشرے میں بگڑے ہوئے بچے، سرعام نشہ کرتے، سڑکوں پہ ایک دوسرے کے گریبان پکڑتے اور مغلظات کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے ہر سمت اور ہر سو ملیں گے، بلا مقصد سیاسی اور مذہبی ٹھگوں کے ہاتھ استعمال ہو کر احتجاجوں میں خود اور والدین کو رسوا کرتے آپ کو جگانے کے لیے کافی ہیں اس لیے اب عمل کا وقت ہے اپنے اور اپنے بچوں کے درمیان فاصلے کو کم رکھیں خود ان کے دوست بن جائیں ان کو سننے کی عادت ڈالیں ہمیشہ کی طرح ذرا نہیں مکمل غور کیجئے تجربہ شرط ہے۔

Check Also

20 Minute

By Zubair Hafeez