Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saleem
  4. Chand Nawab Karachi Se

Chand Nawab Karachi Se

چاند نواب کراچی سے

بیشمار دوست دین اور ایمان کی دشمن جماعت کو معزول کروانے اور اپنی پسندیدہ جماعتوں کی حکومت بنوانے کے بعد اب واپس اپنے کاموں کو لوٹ رہے ہیں۔

آفٹر شاکس برقرار لیکن حالت تحسن کی طرف گامزن ہے۔ جو "خطباء عظام" دور کی کوڑیاں لاتے تھے۔ اس نے جو یوں اشارہ کیا تھا، اس کا یہ صیہونی مطلب بنتا ہے یا یہ جو احتجاجی مظاہرے کی تاریخ کا انتخاب ہے یہ بیت المقدس کے انہدام سے توجہ ہٹانے کیلئے جمائما کے باپ کے کہنے پر رکھی گئی ہے۔ وہ آجکل پھر سے فضائل اولیاء پر مضامین لکھ رہے ہیں۔

ایک مفتی صاحب جس کا پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف کلپ ہر مسلک و مذہب سے ماوراء ہو کر شیئر کرنا باعث نجات تھا۔ آجکل وہ فقہی مسائل کی تشریح فرما رہے ہیں، کہ مرغی وہ ہوگی، جس کا باپ مرغا ہوگا اور جسے انگریزی میں Hen کہا جاتا ہوگا Chicken نہیں بس وہی حلال ہوگی۔

دوسرے مفتی صاحب جو بڑے مولانا سے محبت ایمان کا معیار اور نفاق سے پاکی کی علامت بتاتے تھے۔ آجکل دانت کا درد دانت میں ہو تو دانت کا درد کہلائے گا ورنہ دانت کا درد نہیں کہلائے گا جیسے فقہی امور بتا کر امت کی عاقبت سنوار رہے ہیں۔

باقی ہمارے مذہبی حلیہ والے غیر مذہبی دوست، ان کی الائنٹمنٹ اڑی کر گئی ہے۔ سابقہ حکومت میں پیٹرول پانچ روپے مہنگا ہونے کو یہودی کلٹ کی اسلام کے خلاف سازش بتاتے تھے۔ آجکل ساٹھ روپے کے اضافے کو موجودہ حکومت کی مجبوری بتا رہے ہیں۔ کچھ ایسے دوست جنہوں نے کوئی گندا لطیفہ نہیں سن رکھا وہ فرما رہے ہیں کہ یہ حکومت اس لیئے مہنگائی کر رہی تاکہ یوتھیوں کو بھی مہنگائی محسوس ہو۔

اچھا یہ یوتھیئے ان کے نزدیک ایک محترم لفظ ہے۔ انہیں اپنی پاکی کا بھرم بھی رکھنا ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کا امیج گالم گلوچ والا نہیں ہوتا اس لیئے اسی یوتھیئے کو ہی بگاڑ کر اپنا من راضی کرتے ہیں۔ غصے میں یہ عموما یوتھڑ، یوتھنڈر، عمرانڈو، عمرانڈر اور اسی لے میں کچھ راگ الاپتے ہیں۔

کچھ ایسے اہل علم دوستوں کی بھی واپسی کا سلسلہ شروع ہے۔ جن کے خیال میں وہ تو اچھائی کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس لیئے یہ موجودہ حکومت بھی کچھ غلط کرے گی تو اس پر بھی بولیں گے۔ ورنہ لکھتے یہ ابھی بھی یہی ہیں کہ یہ حکومت پچھلی حکومت کی نحوستوں سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ رانا ثناء اللہ کی انٹظامی صلاحیتوں کا موازنہ کچھ دوستوں نے بس ٹیپو سلطان اور صلاح الدین ایوبی سے نہیں کیا۔

ورنہ تو تعریفوں کے وہ قلابے ملائے ہیں، جو خود رانا صاحب کے گھر والے بھی سن لیں تو حیران رہ جائیں۔ کچھ دوست "عالمی سطح پر آقا علیہ السلام کا مقدمہ لڑا ہے" کے جواب میں توشہ خانے سے گھڑی لی ہے کا بتاتے ہیں۔ تارڑ کی انگلی کیوں محسوس ہو رہی ہے خود انگلی پر ناچتے رہے ہیں بتاتے ہیں۔ وباء میں عالمی بحران کے دوران ملک سنبھالا ہے کا جواب پھر گوگی کیوں دوبئی ہے بتاتے ہیں۔

منگترل نام رکھنے والوں کو اپنا ہی لیول ہے۔ انہیں موجودہ وزیر اعظم عزت نفس کا پیکر کس زاویئے سے نظر آتا ہے بیحد حیرت ہوتی ہے۔ عالمی ادب آداب اور مہمان نوازی کے اصولوں سے نابلد لوگ بھی اب اس بات پر راضی ہیں کہ ایئرپورٹ پر بلدیہ کے افسر نے ریسیو کیا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔

کچھ ایسے لوگ جو اپنے گھر میں آوت جاوت کا حساب نہیں رکھتے وہ بھی بتاتے تھے کہ سربراہوں میں الفابیٹیکلی پیچھے کیوں کھڑا کیا ہے۔ الفابیٹیکل ترتیب کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ وہ اب کے حکمرانوں کو کورے اور چٹے ملے جوابوں کا دفاع کرتے ہیں۔

ایسے دوست بھی پرانے کام پر واپس آ رہے ہیں۔ جو وزیراعظم ہاؤس کے ماہانہ خرچے کا اکاؤنٹ رکھتے تھے۔ جبکہ انہوں نے "اوئے چھوٹے ایناں ساریوں نوں پھڑ کے لندن لے آ" پر کوئی تبصرہ نہیں لکھا۔ اقرباء پرور عمرہ اور دن رات چل رہے کھابوں کے حساب پر بولنا تو خیر ان کا کام ہی نہیں۔

Check Also

313 Musalman

By Hussnain Nisar