Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saleem
  4. Allah Pak Apki Umar Daraz Farmaye

Allah Pak Apki Umar Daraz Farmaye

اللہ پاک آپ کی عمر دراز فرمائیں

دنیا میں اوسط عمر کے لحاظ سے جاپان سر فہرست ہے جہاں لوگ کم سے کم 82 سال کی زندگی پا رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں (بقول علامہ اقبال میڈیکل کالج، جناح ہسپتال کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر راشد ضیاء) یہ تناسب 45 سے 50 سال ہے اور اس میں بھی بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ یعنی ہم میں اور ان کی عمروں میں 32 سے 37 سال کا فرق ہے۔ عمروں کے اس بڑے تفاوت کے بہت سارے اسباب میں سے ایک سبب ہمارے کھانے پینے سے ہے۔

جاپانی جیسے ہی 60 سال کے ہوتے ہیں وہ اپنی زندگی کو بہتر گزارنے کے طریقوں پر غور کرنا شروع کرتے ہیں۔ انہیں اگلے 20 سے 22 سالوں میں کیا کرنا ہے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ورزش کرتے ہیں اور صحت مند رہنے کی سبیل بناتے ہیں۔ وہ ابھی دنیا میں ہیں اور اپنی دنیا کو بہتر بنانے کی سوچتے ہیں۔

احمد الشقیری جدہ کا رہنے والا ایک سعودی ہے۔ ٹی وی سیلیبریٹی ہے اور کئی مشہور پروگراموں کا پیشکار ہے۔ 35 سال کی عمر میں اس نے جاپان، ٹوکیو کے ایک باغ میں سیر کرتے ہوئے 65 سال کے ایک جاپانی سے دوڑ لگانے کی شرط باندھ لی۔ شرط میں باغ کے 3 چکر یعنی 3 کلومیٹر طے ہوئے۔ احمد الشقیری ایک باڈی بلڈر اور کسے ہوئے جثے کا مالک تھا لیکن صحت مند ہونے کا مطلب باڈی بلڈر ہونا نہیں ہوتا۔

صحت کیلیئے مفید دوسری قسم کی ورزشیں ہیں جن سے دل کی دھڑکن پر اثر پڑے، پھیپھڑے استعمال ہوں اور اہم چیز آپ کا میٹابولزم بہتر ہو۔ وہی ہوا کہ احمد صاحب 1 سے 5 پھیرا کاٹ کر ڈھیر ہوئے پڑے تھے جبکہ 65 سالہ جاپانی نے مزے سے اپنی شرط پوری کی۔ صحت کا تعلق عمر سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ 65 سالہ ورزش کرنے والا بھی صحت مند ہو سکتا ہے اور 35 سال کا کسلمند نوجوان بھی پھسپھسا ہو سکتا ہے۔

روزمرہ کے معیاری کھانے ہی صحت مند زندگی کی علامت اور ضمانت ہوتے ہیں۔ سٹیئر ماسٹر، دوڑنے والی مشین، جاگنگ اور سائیکلنگ جسم کو صحت مند بناتے ہیں باڈی بلڈنگ یا ویٹ لفٹنگ نہیں۔ ہمارے مسائل اور مشاکل باقی کی دنیا سے مختلف ہیں۔ ہمارے ہاں کسی کے 60 سال کا ہو جانے کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ بس اس کی زندگی ختم ہو گئی۔ گھر میں ریموٹ کنٹرول تھام کر بیٹھے رہنا، صوفے یا بستر کا ہو رہنا، یا پھر باہر چائے خانے کو آباد کر لینا۔

ایک مختلف زاویئے سے سوچیئے، اللہ ربّ العزت نے اگر آپ کی عمر 90 سال لکھ دی ہے، آپ 60 کے ہو کر ایسے کر رہے ہیں تو اگلے 30 سال کیسے گزاریں گے؟ پاکستان میں اوسط عمر کو کم کرنے والوں میں معاشرے، اولاد اور اہل خانہ کا کردار بھی دیکھنے والا ہوتا ہے۔ میرے برادر نسبتی کا سب سے خوش لباس کولیگ پروفیسر (صاحب اولاد لیکن رنڈوا) ریٹائرڈ ہوا تو اپنے گھر کا ہو رہا۔

کچھ عرصہ کے بعد یہ میرے بھائی انہیں ملنے ان کے گھر چلے گئے۔ عجیب منظر تھا، پروفیسر صاحب کی ساری شگفتگی عنقا تھی، کپڑے (شلوار، قمیض) بغیر استری کیئے ایک دو دن کے پہنے ہوئے اور کچھ میلے تو لگ ہی رہے تھے قمیض پر سالن کے داغ بھی تھے۔ پوچھنے پر بتایا کہ بیٹوں کا کاروبار تو ہے مگر انہوں نے سختی سے منع کر دیا ہے کہ آپ بس گھر پر رہیں اور آرام کریں۔ گھر میں بہو کے سامنے بیٹھے رہنے سے شرم آتی ہے تو سارا دن بیٹھک تک محدود رہ رہے ہیں۔ دل پژمزدگی کا شکار ہے۔

میرے بھائی نے پروفیسر صاحب کی بیٹی کو ساوتھ افریقہ فون کر کے اپنے پاس بلوا کر تب تک رکھنے کیلیئے کہا جب تک وہ ان کے بیٹوں کو سمجھا نہ لیں کہ تم لوگ باپ کو مارنے کے درپے ہو، باز آ جاؤ اور اُسے جینے دو۔ میرے ایک اور نسبتی بھائی کو ان کے والد صاحب نصیحت کیا کرتے تھے کہ بیٹا اپنی نوکری کو مدت ختم ہونے سے چند سال پہلے ہی چھوڑ آنا تاکہ ریٹائرڈ والا ٹھپہ نہ لگے۔

ریٹائرڈ بندہ خود محسوس نہ بھی کرے تو معاشرہ اسے احساس دلاتا رہتا ہے کہ آپ ریٹائرڈ ہیں، اب آپ کا کام اللہ اللہ کرنا ہے، گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر آنا جانا ہے، کھانا اور حوائج سے فارغ ہونا ہے یا پھر ملک الموت کا انتظار کرنا ہے۔ ہمارے ہاں تو معاشرے نے 60 سے اوپر والوں کو کسی گنتی میں ہی نہیں رکھا ہوا۔ عام گفتگو میں بھی "اُس کی تو ٹانگیں قبر میں لٹکی ہوئی ہیں " سے یاد کیا جاتا ہے۔ گویا اگر معاشرہ بد زبانی اور بے احساسی سے مارتا ہے تو یہی کام اولاد احترام اور ادب کے نام پر کر ڈالتی ہے۔

عزیزان، ہسپتالوں میں پڑے لاچار لوگوں سے جا کر سبق حاصل کیجیئے کہ وہ ان نعمتوں کا عشر عشیر پا لینے کیلیئے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں جن نعمتوں کا آپ کفران کر رہے ہیں۔ اگر آپ کے ہاتھ پاؤں چل رہے ہیں تو ان کے عضلات (مسلز) کو مرنے نہ دیجیئے۔ چلتے پھرتے رہیئے، بھر پور زندگی اور زندگی کا ایک ایک منٹ بھرپور طریقے سے گزارنے کا من بنائیے۔ مرنے سے پہلے مرنا شروع نہ کیجیئے۔

رحمت خدا وندی بالکل مایوس نہیں ہوئی۔ باغوں میں ابھی بھی ہوائیں چلتی ہیں، جھرنے ویسے ہی بہتے ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں، بارشوں کے بعد قوسِ قزح ویسے ہی بنتی ہے، پانی کی آواز مدھر گیت ہوتی ہے اور کوئل کی کوک دلکش نغمہ ہوتی ہے۔ کھانے پینے اور مرنے سے آگے کی سوچیئے۔ سیروا و سبحوا بنیئے۔ اپنے علم کی زکوات دیجیئے، اپنے علم کی شمعیں روشن کیجیئے۔ جو کچھ آتا ہے اسے بانٹیئے۔ ہنستے مسکراتے رہیئے۔

Check Also

Madina Sharif Kahan Waqe Hai?

By Irfan Siddiqui