Trump Ki Wapsi Ke Baad Siasi Haqeeqat
ٹرمپ کی واپسی کے بعد سیاسی حقیقت

ٹرمپ کی واپسی ایک سیاسی تماشے سے کم نہیں۔ امریکی سیاست، جو پہلے ہی بے یقینی اور تنازعات کا شکار تھی، اب ایک نئی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ایک ارب پتی، جس نے عوام کے غصے اور مایوسی کو اپنی طاقت کا ذریعہ بنایا، دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھ رہا ہے۔ ان کی شخصیت ایک ایسی فلم کے کردار کی مانند ہے جو ولن بھی ہے اور ہیرو بھی اور ہر سین میں ناظرین کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔
یہی تو کمال ہے ٹرمپ کی سیاست کا! وہ خود کو عوامی نمائندہ کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی پالیسیاں ان کے ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کا مشہور نعرہ "امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں" سننے میں تو بہت دلکش لگتا ہے، لیکن اگر اس کے پیچھے چھپے ارادوں کو دیکھا جائے تو وہ محض عوامی جذبات سے کھیلنے کا ایک حربہ ہے۔
ٹرمپ کی واپسی کو ان کے حامی "نجات" کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ ناقدین کے لیے یہ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ان کی سیاست کی بنیاد نفرت، تقسیم اور تعصب پر رکھی گئی ہے۔ ان کے لیے سب کچھ ایک جنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے: "ہم بمقابلہ وہ"۔ ان کے حامی ہر اس بات کو حقیقت مان لیتے ہیں جو وہ کہتے ہیں، چاہے وہ کتنی ہی غیر معقول کیوں نہ ہو۔
ان کی قیادت میں، امریکی سیاست میں تقسیم پہلے سے کہیں زیادہ گہری ہو چکی ہے۔ جو لوگ انہیں ایک عظیم رہنما سمجھتے ہیں، ان کے لیے ٹرمپ ایک دیوتا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف، ان کے ناقدین انہیں ایک آمر، ایک فاشسٹ اور جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔
یہ صورتحال کسی کامیڈی سے کم نہیں۔ ٹرمپ، جو خود ایک کاروباری دیو ہیں، عوامی بہبود کے نام پر تقریریں کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں جو ایک جمہوری رہنما کے لیے لازم ہیں، لیکن ان کے حامیوں کے لیے یہ سب معمولی باتیں ہیں۔ ان کے لیے، ٹرمپ وہ شخصیت ہیں جو "اسٹیبلشمنٹ" کے خلاف کھڑے ہیں، چاہے وہ خود اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا حصہ کیوں نہ ہوں۔
ان کے اقتدار کے دوران جو سب سے نمایاں بات رہی، وہ ان کا میڈیا سے نفرت کا اظہار تھا۔ میڈیا کو "قوم کا دشمن" قرار دینا اور سچائی کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنا ان کی سیاست کا خاصہ بن چکا ہے۔ ان کے لیے، سچ وہی ہے جو وہ کہتے ہیں اور باقی سب جھوٹ ہے۔
یہاں تک کہ انتخابات کے نتائج کو بھی تسلیم نہ کرنا ان کے طرز سیاست کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک ایسا رہنما، جو اپنی شکست کو ماننے سے انکار کرتا ہو، جمہوریت کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہو سکتا ہے، یہ سمجھنا مشکل نہیں۔ لیکن ان کے حامیوں کے لیے یہ بھی ایک جواز ہے کہ "یہ سب دھاندلی ہے"۔
بین الاقوامی سطح پر بھی ٹرمپ کی واپسی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان کے بیانات اور فیصلے نہ صرف امریکہ کے اتحادیوں کو الجھن میں ڈال دیتے ہیں بلکہ مخالفین کے لیے بھی مزید مواقع فراہم کرتے ہیں۔ چین اور روس کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ امریکی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں۔
لیکن شاید سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ٹرمپ اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ ان پر لگنے والے الزامات، چاہے وہ مالی بے ضابطگی کے ہوں یا اخلاقی گراوٹ کے، ان کے حامیوں کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پیروکاروں کے لیے سچائی کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ ان کے لیے، ٹرمپ وہ نجات دہندہ ہیں جو کسی بھی قیمت پر "امریکہ کو بچانے" کے لیے تیار ہیں۔
ٹرمپ کی واپسی امریکی جمہوری اداروں کے لیے ایک امتحان ہے۔ کیا یہ ادارے اس بحران کا سامنا کرنے کے قابل ہیں؟ یا یہ سب کچھ ایک ایسے عہد کا آغاز ہے جہاں طاقت، انا اور تقسیم جمہوریت پر غالب آ جائیں گے؟
شاید سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ٹرمپ کی سیاست نے امریکہ میں ایک ایسی حقیقت کو جنم دیا ہے جو پہلے ناقابل تصور تھی۔ یہ حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی شعور کو کیسے گمراہ کیا جا سکتا ہے اور جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس نئے بحران سے نکل پائے گا؟ یا یہ واپسی ایک ایسے دور کا آغاز کرے گی جہاں جمہوریت محض ایک خواب بن کر رہ جائے؟ وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے، ٹرمپ کی واپسی نے امریکہ کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جہاں ہر قدم نئے سوالات اور خدشات کو جنم دے رہا ہے۔
اگر یہ صورتحال کسی کے لیے فائدہ مند ہے، تو وہ صرف اور صرف ٹرمپ ہیں۔ ان کے لیے، یہ سب ایک کھیل ہے اور وہ اس کھیل کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں۔ ان کے حامیوں کے لیے، یہ ایک خواب ہے جو وہ حقیقت میں بدلنا چاہتے ہیں اور ان کے ناقدین کے لیے، یہ ایک ایسا خواب ہے جو کسی بھی وقت ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ کی واپسی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے اور کچھ بھی ناقابل یقین نہیں۔ جمہوریت کے لیے یہ ایک چیلنج ہے اور امریکہ کے لیے ایک آزمائش۔ کیا یہ آزمائش جمہوریت کو مضبوط کرے گی، یا اسے مزید کمزور؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر کسی کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔

