Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Kamran Abbasi
  4. Zameen Ki Akhri Pukar

Zameen Ki Akhri Pukar

زمین کی آخری پکار

گزشتہ چند روز میں خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں جو تباہی سیلاب کی صورت میں سامنے آئی ہے، اس نے پوری قوم کو گہرے صدمے اور دکھ میں مبتلا کر دیا ہے۔ گاؤں کے گاؤں اجڑ گئے، پل اور سڑکیں بہہ گئیں، کھیت و کھلیان مٹی کے ڈھیر بن گئے اور سینکڑوں قیمتی جانیں لقمہ اجل بن گئیں۔ بونیر، شانگلہ، سوات اور مانسہرہ کے وہ مناظر جن میں بچے ملبے تلے دبے ملے اور مائیں اپنے پیاروں کے لاشے تھامے بیٹھی ہیں، ہر حساس دل کو رلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقے بھی اس قیامت سے محفوظ نہ رہ سکے۔ غذر اور دیامر میں بستیاں اجڑ گئیں، بیس کلومیٹر سے زائد سڑکیں پانی میں بہہ گئیں اور ہزاروں لوگ دنیا سے کٹ کر محصور ہو گئے۔ مقامی حکومت کو 37 علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی لیکن یہ اقدام بھی اس تباہی کے سامنے بے بس نظر آیا۔

ہم اس المیے کو صرف ایک "قدرتی آفت" کہہ کر اپنے ضمیر کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ اس میں ہمارا اپنا کردار بھی نمایاں ہے۔ دریاؤں کے کنارے اور برساتی نالوں کے دہانے پر بے ہنگم تعمیرات نے سیلاب کو مزید خطرناک بنا دیا۔ برسوں سے جنگلات کو کاٹنے کی روش نے پہاڑوں کو ننگا کر دیا ہے، نتیجہ یہ کہ بارش کا پانی جذب ہونے کے بجائے تیز رفتار ریلے کی شکل میں بستیاں بہا لے جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ بڑھتے درجہ حرارت نے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار دوگنی کر دی ہے اور جب گلیشیائی جھیلیں اچانک پھٹتی ہیں تو پوری وادی لمحوں میں پانی میں ڈوب جاتی ہے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ حکومتی غفلت ہماری بدنصیبی کو اور بڑھا دیتی ہے۔ ماہرین برسوں سے خبردار کرتے آئے ہیں کہ ہمیں ڈیم بنانے، نکاسیٔ آب کے نظام کو بہتر بنانے اور آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے مگر ہماری حکومتیں صرف بیانات اور فوٹو سیشن تک محدود رہیں۔

اس تباہی کے نقصانات صرف انسانی جانوں تک محدود نہیں۔ معاشی طور پر بھی یہ ایک کاری ضرب ہے۔ صرف گلگت بلتستان میں بیس ارب روپے سے زائد کے نقصانات رپورٹ ہوئے ہیں۔ پلوں اور سڑکوں کی تباہی نے سیاحت اور تجارت کو مفلوج کر دیا ہے۔ کھیتوں کے بہہ جانے سے خوراک کی کمی کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ سب صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ان گھروں کا دکھ ہے جہاں کمانے والے اب زندہ نہیں، ان ماؤں کا نوحہ ہے جن کے لختِ جگر ان کے بازوؤں سے چھن گئے اور ان بچوں کی محرومی ہے جن کے تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس بربادی کے بعد کیا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے متاثرہ افراد تک خوراک، صاف پانی، خیمے اور ادویات پہنچانا حکومت اور سماجی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو ازسرِنو تعمیر کرنا ہوگا لیکن صرف عارضی بنیادوں پر نہیں بلکہ جدید انجینئرنگ اور ماحولیاتی حقیقتوں کے مطابق تاکہ یہ آئندہ بارشوں کا سامنا کر سکے۔ دریاؤں کے کنارے اور نالوں کے قریب ہونے والی غیر قانونی تعمیرات فوری طور پر مسمار کرنی ہوں گی اور اس جرم میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔

جنگلات کی بحالی کے بغیر مستقبل کے سیلابوں سے بچنا ناممکن ہے لہٰذا بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے، خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا نظام صرف کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہے بلکہ مقامی سطح پر کمیٹیاں، وارننگ سسٹم اور لوگوں کی تربیت یقینی بنائی جائے تاکہ ہر گاؤں ابتدائی طور پر اپنی حفاظت کر سکے۔ وہ بستیاں جو بار بار تباہی کی زد میں آتی ہیں وہاں مستقل آبادیاں قائم رکھنا کسی طرح دانشمندی نہیں، حکومت کو جرات کے ساتھ ان کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ہوگا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ عوام کا بھی ہے۔ ہمیں اپنی عادات بدلنا ہوں گی۔ ندی نالوں پر گھر بسانا، درخت کاٹنا اور نالوں میں کچرا پھینکنا وہ عمل ہیں جو ہمیں خود ہی تباہی کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اگر ہم قدرت کے اصولوں کے ساتھ جنگ کریں گے تو شکست ہمارا مقدر ہوگی۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ قدرت کے ساتھ ہم آہنگ زندگی ہی ہماری بقا کی ضمانت ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم اس سانحے کو ایک حادثہ سمجھ کر بھلا نہ دیں۔ یہ ایک کڑا سبق ہے کہ اگر ہم نے اپنی پالیسیوں اور رویوں کو نہ بدلا تو آنے والے برسوں میں یہ آفات اور بھی ہولناک ہوں گی۔ سیلاب صرف پانی نہیں لاتا، یہ ہمارے مستقبل کو بہا لے جاتا ہے۔ آج ہمیں متحد ہو کر، عقل و تدبیر کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر ہم نے یہ موقع بھی گنوا دیا تو کل ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

Check Also

Zeloni Bazar Semi

By Ashfaq Inayat Kahlon