Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Kamran Abbasi
  4. Tasadum Se Mufahimat Tak, Imran Khan Ke Liye Asal Imtihan

Tasadum Se Mufahimat Tak, Imran Khan Ke Liye Asal Imtihan

تصادم سے مفاہمت تک، عمران خان کے لیے اصل امتحان

پانچ اگست کا احتجاج تحریکِ انصاف کے لیے ایک اہم موڑ ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کتنے لوگ سڑک پر نکلیں گے، نہ یہ کہ کتنی تقریریں ہوں گی، بلکہ سوال یہ ہے کہ اس احتجاج کے بعد راستہ کس طرف جائے گا؟ کیا یہ ایک اور دن ہوگا جو جوش اور نعروں میں گزر جائے یا یہ ایک ایسا لمحہ ثابت ہوگا جو تحریکِ انصاف کو حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور کرے؟

پاکستان میں سیاست کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ریاست سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ جس نے طاقت کے مراکز کو دشمن سمجھ کر تصادم کا راستہ اپنایا وہ یا تو ختم ہوگیا یا خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا۔ طاقت کے ساتھ مفاہمت ہی وہ راستہ ہے جو سیاستدان کو زندہ رکھتا ہے اور یہی راستہ اس ملک کو بحران سے نکال سکتا ہے۔

عمران خان کا اپنا ریکارڈ بھی یہی کہتا ہے۔ وہ ہمیشہ مفاہمت کے قائل رہے ہیں۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو ان کی سیاست اسی تعاون کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ بطور وزیرِاعظم انہوں نے بارہا اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے کی کوشش کی۔ اختلافات جب بڑھے تب بھی وہ یہ کہتے رہے کہ "میں بات کرنے کو تیار ہوں"۔ یہ کوئی کمزوری نہیں تھی بلکہ سیاست کی وہ حقیقت تھی جسے تسلیم کرنا ہر رہنما کے لیے ضروری ہے۔

پانچ اگست کا احتجاج عمران خان کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنے بیانیے کو نیا رنگ دیں۔ یہ بیانیہ صرف اقتدار کی جنگ کا نہ ہو بلکہ عوام کے مسائل کو مرکز میں رکھے۔ مہنگائی، بے روزگاری، انصاف کی کمی یہی وہ مسائل ہیں جنہوں نے اس ملک کے لوگوں کو مایوس کر دیا ہے۔ اگر تحریکِ انصاف ان مسائل کو اپنے احتجاج کا محور بنا لے اور یہ پیغام دے کہ وہ ریاست سے لڑنے نہیں بلکہ اس کے ساتھ مل کر انہیں حل کرنے آئی ہے تو یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

تحریکِ انصاف کو بھی اپنی حکمتِ عملی بدلنی ہوگی۔ ایک دن کا احتجاج وقتی جوش پیدا کرتا ہے لیکن تبدیلی کے لیے طویل اور منظم جدوجہد ضروری ہے۔ کارکنوں کو منظم رکھنا، عوام سے براہِ راست رابطہ بڑھانا اور سیاسی بیانیے کو ایسے انداز میں پیش کرنا جو انتشار کے بجائے استحکام کا پیغام دے یہی وہ اقدامات ہیں جو اس جماعت کو ایک نئی سمت دے سکتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ اگر کل عمران خان کو دوبارہ کرسی مل بھی جائے تو کیا وہ پرانا راستہ اپنائیں گے یا ایک نئی سیاست شروع کریں گے؟

عمران خان کو اب اپنے حامیوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ سیاست میں دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ آج کے مخالف کل کے اتحادی ہو سکتے ہیں اور جو یہ سمجھ لے، وہی طویل کھیل جیتتا ہے۔ تحریکِ انصاف کو بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مسلسل تصادم سے زیادہ فائدہ اس میں ہے کہ ایک ایسا بیانیہ بنایا جائے جو ریاست کو دشمن نہیں بلکہ پارٹنر کے طور پر دیکھے۔ کیونکہ اس ملک میں کوئی بھی پارٹی تنہا کامیاب نہیں ہو سکتی۔

یہ ملک ہم سب کا ہے۔ ریاست کو کمزور کرکے، اداروں سے لڑ کر اور ملک کو مزید بحران میں ڈال کر ہم کسی اور کا نہیں اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ جذبات وقتی تسکین دیتے ہیں لیکن مستقل نقصان پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست کا مقصد ٹکراؤ نہیں بلکہ ایسا راستہ تلاش کرنا ہے جس میں عوام کے مسائل بھی حل ہوں اور ملک بھی مضبوط ہو۔

Check Also

Zeloni Bazar Semi

By Ashfaq Inayat Kahlon