Siasi Khwab Ka Marsiya
سیاسی خواب کا مرثیہ

میں نے سیاست کے کئی رنگ دیکھے ہیں۔ میں نے وزرائے اعظم کو آتے اور جاتے دیکھا ہے، فوجی آمروں کو ابھرتے اور گرتے دیکھا ہے، مگر جو کچھ عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ ہوا، وہ ایک منفرد اور سبق آموز کہانی ہے۔ میں نے ان کا عروج اپنی آنکھوں سے دیکھا جب لوگ انہیں تبدیلی کا استعارہ سمجھتے تھے اور آج میں ان کا زوال بھی دیکھ رہا ہوں جب وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ان کی جماعت بکھر چکی ہے۔
مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب عمران خان اقتدار میں آئے۔ ان کے لہجے میں ایک غیر متزلزل یقین اور ان کی آنکھوں میں خوابوں کی چمک تھی۔ ہم سب نے گمان کیا کہ شاید اب پاکستان کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہوگی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ ان کی سیاست ایک شخص کے گرد گھوم رہی ہے، نہ کہ کسی مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچے کے گرد۔ ایک جماعت جو صرف ایک فرد پر انحصار کرے، وہ مشکل وقت میں ہمیشہ تنہا رہ جاتی ہے اور یہی میں نے تحریک انصاف کے ساتھ ہوتے دیکھا۔
اصلاحات اور احتساب کے نعرے شروع میں امید جگاتے تھے۔ لیکن جب خیبرپختونخوا میں بی آر ٹی اور بلین ٹری جیسے منصوبوں پر سوالات اٹھے تو یہ احساس ہوا کہ یہ جماعت بھی پرانی روش سے زیادہ مختلف نہیں۔ اندرونی احتساب کا نظام جس کا عمران خان بار بار ذکر کرتے تھے، کبھی حقیقت میں مؤثر ثابت نہ ہو سکا۔ کارکنوں میں بھی یہ سوال ابھرنے لگا کہ کیا یہ واقعی تبدیلی کی تحریک ہے یا بس ایک نیا چہرہ پرانے نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
میں نے مئی 2022 کا لانگ مارچ قریب سے کور کیا۔ عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا، مگر فیصلہ کن لمحے پر اچانک دھرنا ختم کر دیا گیا۔ اس رات میں نے ایک نوجوان کارکن کو یہ کہتے سنا: "ہم نے قربانیاں دیں اور ہماری قیادت نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا"۔ یہ جملہ میرے ذہن میں آج تک گونجتا ہے، کیونکہ یہ پوری تحریک کی غیر یقینی کیفیت کی عکاسی کرتا تھا۔
مئی 9 کے واقعات کے بعد جو ریاستی کریک ڈاؤن ہوا، میں نے وہ سب بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ گھروں پر چھاپے، کارکنوں کی گرفتاریاں، دفاتر کا سیل ہونا۔ عمران خان بار بار کہتے رہے کہ ادارے ان کی جماعت کو توڑنے پر تلے ہوئے ہیں اور شاید وہ درست بھی تھے، مگر میں یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اگر پارٹی کا ڈھانچہ مضبوط ہوتا، اگر قیادت کے پاس کوئی متبادل منصوبہ ہوتا، تو شاید یہ سب کچھ اتنا آسان نہ ہوتا۔
عدالتوں کے باہر عمران خان کی پیشیوں پر لوگوں کا ہجوم بھی میں نے بارہا دیکھا۔ کبھی توشہ خانہ کیس، کبھی القادر یونیورسٹی اسکینڈل، کبھی مئی 9 کے الزامات۔ ایک کے بعد ایک سزا سنائی گئی اور میں نے عمران خان کے لہجے میں سختی بڑھتے دیکھی۔ وہ ایک سیاسی رہنما سے زیادہ ایک مزاحمت کی علامت بنتے جا رہے تھے، لیکن یہ مزاحمت منظم شکل اختیار نہ کر سکی۔
پارٹی کے اندرونی حالات بھی زوال کی ایک بڑی وجہ بنے۔ بڑے رہنماؤں کی معطلی، اندرونی دھڑے بندی اور انٹرا پارٹی انتخابات میں بے ضابطگیاں، سب نے مل کر جماعت کو اندر سے کمزور کیا۔ سپریم کورٹ کا انتخابی نشان واپس لینا اس کہانی کا آخری دھچکا تھا۔ وہ جماعت جو کبھی عوامی قوت کا استعارہ سمجھی جاتی تھی، آج اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔
ان تمام مناظر کا گواہ بننے کے بعد میں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوں کہ عمران خان کا خواب شاید سچا تھا، مگر اسے حقیقت بنانے کے لیے جو حکمت عملی درکار تھی، وہ کبھی موجود نہیں تھی۔ ایک مقبول رہنما اپنی جماعت کو ادارہ جاتی بنیادوں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہا اور یہی ناکامی اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے گئی اور اس کی جماعت کو بکھیر گئی۔
عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے ایک ہی راستہ ہےاور وہ یہ ہےکہ وہ اپنے گرد شخص پرستی کا حصار توڑیں، ایک مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ کھڑا کریں اور اپنی سیاست کو احتجاج کے شور سے نکال کر مکالمے اور پالیسی پر مرکوز کریں۔ اگر وہ یہ کر پائیں تو شاید وہ پھر سے اٹھ سکیں، ورنہ تاریخ انہیں ایک ایسے خواب کے طور پر یاد رکھے گی جو ادھورا رہ گیا۔

