Kaptan Ki Tabdeeli
کپتان کی تبدیلی
ایک وقت تھا جب بہت سے نوجوانوں کی طرح میں بھی ملکی سیاست میں دو پارٹیوں کی میوزیکل چیئر سے مایوس تھا اور اس دوران جس شخص نے میری سوچ، میرے خیالات، میرے جزبات کو اپنے حق میں تیدیلی کے نعرے کے ساتھ تبدیل کیا وہ سابق چیئرمین تحریک انصاف تھے۔ وہ بالکل وہی بولتے تھے اور کرنے کا وعدہ کرتے تھے جو میری طرح ہر پاکستانی کے دل کی آواز تھی۔
سابق کرکٹر ہونے کی وجہ سے وہ بین القوامی سٹار تو تھے ہی لیکن جو وہ پاکستان کے لئے کرنے کا کہتے تھے اس سے میری طرح بہت سے لوگ ان کے سحر میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ شروع میں ان کو اس طرح سے پزیرائی تو نہیں ملی لیکن آہستہ آہستہ ملکی سیاست میں وہ پاکستان کی بڑی پارٹی کے سربراہ اور پھر وزیراعظم بھی بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا جو ایک عام پاکستانی کے ساتھ کئی دہائوں سے ہوتا چلا آ رہا تھا۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ نوے دن میں تبدیلی کا وعدہ تھا اس کے بعد کہا گیا کہ ایک سال تک کوئی تنقید نہ کرے تو ملک میں بڑی تبدیلی آ جائے گی۔
وزیر اعظم ہاوس یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا وعدہ پورا کرتے کرتے پہلے میڈیا وزیر اعظم ہاوس کی بھینسیں بیچنے کی کوریج کرتا رہا اور اس کے بعد وزیر اعظم ہاوس کی گاڑیوں کی نیلامی پر ہفتوں پروگرامز ہوتے رہے لیکن کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ ان بھینسوں کو بیچنے کے بعد وزیر اعظم ہاوس کے لئے دودھ کا ٹھیکا کس کو ملا اور جو گاڑیاں بیچ دی گئیں تو اس کے بعد نئی گاڑیاں کتنے میں اور کتنی خریدی گئیں۔
سائیکل پر وزیراعظم ہاوس جانے کے وعدے اور ہیلی کاپٹر کے فیول کو پچپن روپے لیٹر ہونے کی توجیہات تک پیش کی جاتی رہیں۔ پولیس ریفرمز کا وعدہ تھا لیکن آئی جیز تک کو ایس ایج اوز کی طرح تبدیل کیا جاتا رہا۔ میریٹ کا وعدہ تھا لیکن اسی میریٹ پر عثمان بزدار پنجاب کا وزیر اعلی تھا۔ کپتان نے کہا تھا کہ میرے پاس ٹیم موجود ہے جو ملک کی تقدیر بدل دے گی لیکن جس ٹیم کے ساتھ وہ میدان میں اترے وہ خود کہتی رہی کہ ابھی ٹرینیگ چل رہی ہے۔
ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ تھا اور عوام کو مرغیوں اور کٹوں پر لگا دیا اور وہ بھی کس کس نے اس سے فائدہ اٹھایا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ پچاس لاکھ گھروں کا کہ کر لوگوں کے بنے بنائے گھر گرا دئے گئے اور ان کو لنگر خانے کا رستہ دکھایا اور اپنا گھر ریگولرائز کروا لیا۔ ان سب کے باوجود یہ سوچ کر سب کچھ بھول جانا چائیے کہ سیاست میں کئے گئے وعدے کم ہی پورے ہوتے ہیں لیکن جاتے جاتے جو آئی ایم ایف سے معادہ توڑا گیا تاکہ ملک ڈیفالٹ ہو جوئے وہ ناقابل معافی ہے۔ بعض تحریک انصاف کے ہمایتی تو اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ آج ملک ڈیفالٹ ہوا کہ کل یہ جانے بغیر کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
وہ سب قارئین جن کو اس کا مطلب نہیں پتا ان کو بتاتا چلوں کہ ہم بین القوامی تجارت ڈالرز میں کرتے ہیں اور ڈیفالٹ ہونے کا سادہ الفاظ میں مطلب ہے کہ ہمارے پاس کوئی بھی چیز درآمد کرنے کے لئے ڈالز نہیں ہیں اور باقی چیزوں کواگر ہم نہ بھی شامل کریں تو صرف تیل اور جان بچانے والی ادویات کے نہ ہونے کی وجہ سے ہی ملک کا سارا نظام تباہ ہو سکتا ہے۔
اشرافیہ تو اپنا نظام چلا ہی لیتی لیکن پہلے سے پسا طبقہ مزید اندھیروں میں چلا جاتا وہ بھی صرف ایک شخص کی انا کی وجہ سے۔ اس دن میرے دل سے کپتان کی تبدیلی ہوگئی۔ آٹھ فروری قریب ہے اور سب سے بڑی طاقت آپ کے پاس ہے ووٹ کی صورت میں۔ ووٹ کا حق لازمی استعمال کریں کیونکہ یہی آپ کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔