Hamari Pasand Ka Sach
ہماری پسند کا سچ

آج کے دور میں سب سے سستی اور سب سے مہنگی چیز ایک ہی ہے "بیانیہ" ہر طرف سے خبریں، پوسٹیں، ویڈیوز اور پیغامات اس رفتار سے آرہے ہیں کہ انسان کے پاس سانس لینے کا وقت بھی نہیں بچتا۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ؟ اور یہ جھوٹ اور سچ ہمارے ذہن اور دل کو کس طرح بدل رہے ہیں؟
گاؤں کی چائے کی دکان سے لے کر بڑے شہروں کے مہنگے کیفے تک، بات وہی ہوتی ہے جو ہم نے موبائل کی اسکرین پر دیکھی یا کسی گروپ میں سن لی۔ کوئی تصویر، کوئی ویڈیو، کوئی ٹویٹ یا فیس بک پوسٹ آتی ہے اور ہم بنا تصدیق کے اسے اپنے دل میں جگہ دے دیتے ہیں۔ جذبات میں آکر کبھی خوش ہوتے ہیں، کبھی غصہ آتا ہے، کبھی نفرت جنم لیتی ہے اور کبھی امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے بھی یا نہیں؟
سوشل میڈیا کی دنیا ایک ایسے آئینے کی طرح ہے جو ہمیں وہی دکھاتی ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمیں وہ خبریں، ویڈیوز اور آراء زیادہ بھیجتی ہے جو ہمارے ذہن کے مطابق ہوں تاکہ ہم مزید وقت وہاں گزاریں۔ یوں ہم رفتہ رفتہ ایک ایسے دائرے میں قید ہو جاتے ہیں جہاں ہم صرف اپنی مرضی کا سچ سنتے ہیں اور باقی حقیقت ہمارے لیے اجنبی ہو جاتی ہے۔ یہ ایسا جال ہے جس میں پڑنے کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ ہم دنیا کو سمجھ رہے ہیں، مگر اصل میں ہم دنیا کے صرف ایک ورژن کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ایک عام آدمی کا غصہ، خوشی، امید یا مایوسی اکثر کسی وائرل پوسٹ کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ ایک جھوٹی خبر کسی محلے میں فساد کرا سکتی ہے، ایک غلط تصویر کسی خاندان کی عزت خاک میں ملا سکتی ہے اور ایک تراشی ہوئی ویڈیو پوری قوم کے موڈ کو بدل سکتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ بغیر تصدیق کے صرف اپنی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر یہ طے کر لیتے ہیں کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔
کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی زندگی بھر کی نیک نامی، محض ایک فرضی پوسٹ کے ہاتھوں برباد ہو جاتی ہے اور جب بعد میں پتہ چلتا ہے کہ حقیقت کچھ اور تھی تب تک نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت ہم میں سے کتنے لوگ اس نقصان کی تلافی کرنے یا اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہوتے ہیں؟ سچ یہ ہے کہ جھوٹ کا سفر اتنا تیز ہے کہ سچ اس کا پیچھا کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں جھوٹ کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے والے لوگ سچ بولنے والوں سے زیادہ کامیاب ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک جھوٹا دعویٰ کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے مگر اس کی تردید چند ہزار لوگوں سے آگے نہیں جا پاتی اور یہ سب ہمارے ذہن پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ آہستہ آہستہ ہم حقیقت اور فریب میں فرق کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ صرف سیاست یا مشہور شخصیات کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ہر گھر، ہر گلی اور ہر رشتے کا مسئلہ ہے۔ ایک غلط خبر کسی کی نوکری چھین سکتی ہے، کسی کی شادی ختم کر سکتی ہے، کسی کے بچے کی تعلیم پر اثر ڈال سکتی ہے۔ جب ہم بغیر سوچے سمجھے جھوٹ پھیلاتے ہیں تو ہم خود بھی اس نقصان کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس صورتحال کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ ہم جھوٹ سن سن کر، دیکھ دیکھ کر اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کبھی کبھی سچ ہمیں عجیب لگتا ہے۔ ہمیں وہی بات صحیح لگتی ہے جو ہمارے پہلے سے بنے ہوئے خیالات کو تقویت دے۔ اگر سچ اس سے مختلف ہو تو ہم اسے رد کر دیتے ہیں، چاہے ثبوت ہمارے سامنے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے معاشرے میں نفرت، تقسیم اور بداعتمادی جنم لیتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی رشتے یا معاشرے کی بنیاد اعتماد پر ہوتی ہے۔ اگر اعتماد ٹوٹ جائے تو باقی سب کچھ ریت کی دیوار کی طرح گر جاتا ہے اور سوشل میڈیا کا یہ جھوٹ، یہ پروپیگنڈا، ہمارے اعتماد کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ آج ہم ایک دوسرے کی بات پر نہیں بلکہ اپنے فون پر آئے کسی نامعلوم اکاؤنٹ کی پوسٹ پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔
یہ صورتحال بدلنے کے لیے ہمیں خود سے آغاز کرنا ہوگا۔ ہمیں ہر خبر، ہر تصویر، ہر ویڈیو کو شک کی نظر سے دیکھنا ہوگا، چاہے وہ ہمارے پسندیدہ لیڈر یا پسندیدہ نظریے کے حق میں ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں سچ جاننے کی عادت ڈالنی ہوگی چاہے وہ کڑوا ہو اور ہمارے نظریات کو چیلنج ہی کیوں نہ کرے۔ ہمیں اپنی اگلی نسل کو یہ سکھانا ہوگا کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی اور ہر وائرل ہونے والی بات حقیقت نہیں ہوتی۔
آخر میں بات پھر وہیں آتی ہے کہ ہمارے الفاظ اور ہمارے یقین، دونوں کا خون ہو رہا ہے اور ہم خاموش ہیں کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں سچائی سن کر ہمارا اپنا خواب نہ ٹوٹ جائے۔ ہم خبر نہیں تلاش کرتے، ہم صرف وہ الفاظ ڈھونڈتے ہیں جو ہمارے دل کو اچھے لگیں، چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم نے سچ کو کڑوا کہہ کر چھوڑ دیا اور جھوٹ کو میٹھا سمجھ کر گلے لگا لیا۔ وقت گزر جائے گا، حالات بدل جائیں گے، لیکن یہ زہر جو ہم اپنے ذہن میں بھر رہے ہیں، آنے والی نسلوں کے خون میں اُتر جائے گااور شاید پھر بہت دیر ہو جائے۔

