Cheeni Ki Mithas, Nizam Ki Talkhi
چینی کی مٹھاس، نظام کی تلخی

پاکستان میں چینی صرف چائے کو میٹھا کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت کا نام بھی ہے۔ پاکستان میں چینی ایک بنیادی ضرورت کی چیز ہے، لیکن یہ اشیائے خورد و نوش میں واحد شے بن چکی ہے جو ہر سال کسی نہ کسی بحران کا شکار ضرور ہوتی ہے۔ چینی اسکینڈل اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ ہر سال رمضان سے کچھ ہفتے پہلے یا گنے کی کٹائی کے موسم میں اچانک چینی کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، مارکیٹ میں قلت پیدا ہوتی ہے، حکومت ایکسپورٹ اور امپورٹ کے فیصلے کرتی ہے، سبسڈی دی جاتی ہے اور پھر ایک تحقیقاتی رپورٹ آتی ہے جس میں کچھ بڑے ناموں کا ذکر ہوتا ہے، مگر انجام ہمیشہ ایک سا ہوتا۔۔ کوئی سزا نہیں، کوئی اصلاح نہیں اور اگلے سال ایک نیا اسکینڈل۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب ہوتا کیوں ہے؟ کیا واقعی ہر سال چینی کی پیداوار میں کمی ہوتی ہے؟ کیا واقعی طلب اتنی بڑھ جاتی ہے کہ قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں؟ یا یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے؟ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چینی کا بحران قدرتی نہیں بلکہ مکمل طور پر مصنوعی ہوتا ہے اور اس کے پیچھے کچھ مخصوص طبقات ہوتے ہیں جن کے مفادات اس بحران سے وابستہ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں شوگر ملز کا مالک بننا صرف ایک کاروبار نہیں بلکہ ایک مکمل سیاسی اور مالی سلطنت بنانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ملک کی کئی بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنما خود شوگر مل مالکان ہیں یا ان کے خاندان اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ جب فیصلہ ساز خود فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہوں تو پالیسی کیسے عوامی مفاد میں بن سکتی ہے؟ یہ سوال شاید ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
ہر سال یہی ہوتا ہے کہ جب گنے کی فصل تیار ہوتی ہے تو کسانوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کم قیمت پر اپنی پیداوار فروخت کریں۔ مل مالکان ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں اور بعض اوقات کسانوں کو قانونی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف جب چینی تیار ہو جاتی ہے تو اسے مارکیٹ میں جاری کرنے کے بجائے مخصوص لوگ ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ جب بازار میں قلت پیدا ہوتی ہے تو یہی چینی تین گنا قیمت پر بیچی جاتی ہے اور سادہ لوح عوام مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پھر آتی ہے حکومت کی باری۔ سبسڈی کے نام پر مل مالکان کو اربوں روپے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ چینی ایکسپورٹ کریں۔ کچھ مہینوں بعد کہا جاتا ہے کہ ملک میں چینی کی کمی ہوگئی ہے لہٰذا چینی درآمد کی جائے گی۔ ایک طرف ایکسپورٹ کی سبسڈی دوسری طرف امپورٹ پر خرچ یعنی ہر طرف سے فائدہ ان ہی لوگوں کو ہوتا ہے جو اس سارے کھیل کے ماسٹر مائنڈ ہوتے ہیں۔
ایف آئی اے، نیب یا کسی انکوائری کمیشن کی رپورٹ کبھی کبھار سامنے آ بھی جائے تو اس میں بھی زیادہ تر وہی باتیں ہوتی ہیں جو عوام پہلے سے جانتے ہیں۔ چند بڑے نام، کچھ مالی اعداد و شمار اور کچھ تجاویز لیکن کبھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ کیسز عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور برسوں تک لٹکے رہتے ہیں۔ آخر میں نہ تو کوئی سزا ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اصلاح۔
چینی اسکینڈل کے سب سے بڑے متاثر کسان اور عام عوام ہوتے ہیں۔ کسان کو اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا اور صارف کو چینی دوگنی یا تین گنی قیمت پر خریدنی پڑتی ہے۔ جبکہ فائدہ اٹھانے والے وہی پرانے کھلاڑی ہوتے ہیں جن کے پاس نہ صرف سرمایہ ہے بلکہ اختیار بھی ہے۔ ان کے پاس ایسا نیٹ ورک ہوتا ہے جو ذخیرہ اندوزی سے لے کر پالیسی سازی تک ہر مرحلے پر ان کے لیے کام کرتا ہے۔
حل کیا ہے؟ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ ارباب اختیار کی بات کریں تو سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مسئلہ کسی تکنیکی خرابی کا نہیں بلکہ نیت اور نظام کی کمزوری کا ہے۔ حکومت کو چینی کی پیداوار، ذخیرہ، تقسیم اور فروخت کے پورے نظام کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر لانا ہوگا۔ ہر مل کی پیداوار اور اسٹاک کا ریکارڈ عوامی سطح پر دستیاب ہونا چاہیے تاکہ کوئی چیز چھپائی نہ جا سکے۔
دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ سیاست دانوں کو کاروبار سے الگ کیا جائے یا کم از کم مفادات کے ٹکراؤ کی صورت میں انہیں فیصلہ سازی سے روکا جائے۔ اگر ایک شخص خود شوگر مل کا مالک ہے تو وہ چینی کی قیمت پر کیسے غیر جانب دار فیصلہ کر سکتا ہے؟ یہ تضاد ختم کیے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔
تیسرا اقدام یہ ہونا چاہیے کہ سبسڈی کا نظام شفاف بنایا جائے۔ اگر سبسڈی دینی ہے تو صرف صارف کو دی جائے نہ کہ مل مالکان کو۔ کسانوں کو گنے کی قیمت بروقت ادا کرنے کا قانون سختی سے نافذ کیا جائے اور خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جائیں۔
آخر میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ چینی اسکینڈل کو ایک وقتی بحران کے بجائے ایک مستقل مسئلہ سمجھا جائے۔ یہ اسکینڈل صرف چینی کی قیمت کا مسئلہ نہیں بلکہ ہماری گورننس، معیشت، سیاست اور عدلیہ کی ناکامی کی ایک جھلک ہے۔ جب تک اصل مجرموں کو سزا نہیں دی جائے گی، جب تک نظام کو شفاف نہیں بنایا جائے گا اور جب تک عوامی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح نہیں دی جائے گی، تب تک ہر سال ایک نیا اسکینڈل سامنے آئے گا، نئی تحقیقات ہوں گی اور پھر سب کچھ بھلا دیا جائے گا۔
عوام کیا کر سکتے تو عام لوگوں کو سمجھنا چائیے کہاب وقت آ گیا ہے کہ وہ صرف صارف نہ رہیں بلکہ باشعور شہری بنیں۔ چینی کی قیمت صرف چائے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اس نظام کی علامت ہے جو چند ہاتھوں میں دولت جمع کرتا ہے اور باقی قوم کو مہنگائی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیتا ہے۔ اگر ہم اس نظام کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ بنیادی تبدیلیاں اپنے رویے میں لانی ہوں گی۔
سب سے پہلے عوام کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا، جلسوں اور کمیونٹی پلیٹ فارمز پر آواز اٹھائیں لیکن صرف جذباتی نعروں سے نہیں بلکہ معلوماتی اور دلیل سے بھرپور سوالات کے ساتھ۔ چینی کی قیمت کیوں بڑھی؟ کس نے ذخیرہ کی؟ حکومت نے کیا اقدامات کیے؟ ان سوالات کو عام کیا جائے۔
دوسرا قدم یہ ہے کہ ووٹ دیتے وقت ان نمائندوں سے سوال کیا جائے جو شوگر ملز کے مالک ہیں یا اس مافیا سے جڑے ہیں۔ ان سے مانگا جائے کہ وہ اپنا مفاد واضح کریں، اپنی ملز کی معلومات عوام کے سامنے لائیں اور اپنے حلقے میں گنے کے کسانوں کو کیا دیا، اس کا حساب دیں۔
تیسرا اور سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ عوام خود کو منظم کریں۔ جیسے طلبہ یونینز، لیبر یونینز اور کسان تحریکیں ایک وقت میں بڑا کردار ادا کرتی تھیں، آج ہمیں صارف تحریک (Consumer Movement) کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا فورم جو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر نظر رکھے، تحقیق کرے اور جب بھی کسی مصنوعی بحران کی بو آئے، میڈیا اور عدالتوں کے ذریعے بروقت ایکشن لے۔
عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ آج خاموش رہے تو صرف چینی نہیں، آٹا، دال، دودھ، گیس، بجلی، سب کچھ مافیا کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ لہٰذا، اب وقت ہے کہ عوام صرف شکایت کرنے والے نہ رہیں بلکہ سوال کرنے والے اور دباؤ ڈالنے والے شہری بنیں۔
حکومت کو مجبور کیا جا سکتا ہے اگر عوام کی آواز منظم، مسلسل اور دلیل سے بھرپور ہو۔ میڈیا، عدالتیں اور سوشل پلیٹ فارمز عوام کے ساتھ ہیں مگر شرط یہ ہے کہ عوام خود اپنی طاقت کو پہچانیں۔
اب صرف سوال یہ نہیں کہ "حکومت کیا کرے؟" بلکہ یہ ہے کہ "ہم کیا کر رہے ہیں؟" اور "ہم کیا کریں گے؟"۔ اگر یہ سوال ہم نے خود سے سنجیدگی سے پوچھ لیا تو صرف چینی نہیں، پورا نظام بدل سکتا ہے۔
یہ وقت ہے جاگنے کا، سمجھنے کا اور بولنے کا۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں صرف چینی ہی نہیں بلکہ ہر بنیادی ضرورت کے لیے ترسیں گی اور ہم صرف رپورٹیں پڑھتے رہیں گے، جن میں سچ بھی ہوگا، ثبوت بھی، لیکن انصاف کہیں نہیں۔

