Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Kamran Abbasi
  4. America Aur Russia, Kya Dunya Aik Aur Jang Ki Dehleez Par Hai?

America Aur Russia, Kya Dunya Aik Aur Jang Ki Dehleez Par Hai?

امریکہ اور روس، کیا دنیا ایک اور جنگ کی دہلیز پر ہے؟

گزشتہ چند دنوں میں بین الاقوامی سیاست میں جو ہلچل دیکھی گئی، وہ کسی ایک معمولی بیان یا پالیسی ردوبدل کا نتیجہ نہیں، بلکہ دو عالمی طاقتوں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کا عملی مظاہرہ ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے، جس کے تحت انہوں نے دو نیوکلیئر آبدوزوں (سب میرینز) کو روس کے قریب "مناسب مقامات" پر تعینات کرنے کا حکم دیا، نے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ یہ صرف ایک عسکری اقدام نہیں بلکہ ایک واضح پیغام بھی ہے، وہ پیغام جو براہ راست کریملن کے دروازے پر دیا گیا۔

ٹرمپ کا یہ قدم دراصل روسی رہنما دمتری میدویف کے سخت جملوں کے ردِعمل میں سامنے آیا، جنہوں نے ٹرمپ کے یوکرین جنگ کے بارے میں بیانات کو اشتعال انگیز اور خطرناک قرار دیتے ہوئے "ڈیڈ ہینڈ" جیسے خوفناک نظام کی یاد دلائی۔ یہ وہی سویت دور کا خودکار نیوکلیئر ردِعمل کا نظام ہے جو اگر چالو ہو جائے، تو دنیا کو بچانے کے لیے شاید اقوامِ متحدہ بھی ناکافی ہو۔

یہ تمام صورتحال ایک نئی سرد جنگ کی طرف پیش رفت ہے یا محض انتخابی مہم کی جارحانہ حکمت عملی؟ یہ سوال آج ہر تجزیہ نگار کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔

ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ وہ 10 سے 12 دن میں یوکرین جنگ ختم کروا سکتے ہیں، محض دعویٰ نہیں بلکہ روس کے لیے براہ راست چیلنج بھی تھا۔ اس دعوے کے بعد میدویف کا بیان اور پھر ٹرمپ کی جوابی عسکری چال سب کچھ ہمیں اس سمت دھکیل رہے ہیں جہاں دنیا ایک اور جنگ کے دہانے پر کھڑی ہو سکتی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ نیوکلیئر آبدوزوں کا اصل ہتھیار ان کی خاموشی اور غیرمرئی موجودگی ہوتا ہے، ان کی عوامی تعیناتی کا اعلان عسکری روایات سے ہٹ کر ایک خطرناک روایت بن سکتا ہے۔ اس اقدام سے دنیا کے دیگر ممالک، خاص طور پر نیٹو، چین اور ایران جیسے کھلاڑی بھی متحرک ہو سکتے ہیں۔

روس اور امریکہ، دونوں کے پاس پانچ ہزار سے زائد نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں۔ یہ ہتھیار انسانیت کے وجود کے لیے خطرہ ہیں اور ان کے استعمال کا تصور ہی لرزہ خیز ہے۔ اس صورتحال میں ٹرمپ کی یہ حکمت عملی کہ وہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان سب میرینز کی تعیناتی کا اعلان کریں، نہ صرف عسکری قیادت بلکہ عالمی پالیسی سازوں کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنی عسکری چالیں محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ یا دباؤ کی پالیسی کے تحت چلی ہیں، تو یہ بے حد غیر ذمہ دارانہ عمل ہے اور اگر واقعی صورتحال سنگین ہے، تو اقوامِ متحدہ، نیٹو، چین اور دیگر بڑی طاقتوں کو فوری طور پر ثالثی کے لیے میدان میں آنا ہوگا۔

ہم یہ بات تاریخ سے سیکھ چکے ہیں کہ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ وہ نئے مسائل، انسانی المیے اور عالمی عدم استحکام کو جنم دیتی ہے۔ عراق، افغانستان، شام، لیبیا سب اس کی مثالیں ہیں۔

آج دنیا کو ایک مرتبہ پھر سفارت کاری، حکمت اور تحمل کی ضرورت ہے۔ اگر عالمی رہنما اپنی انا، اقتدار کی ہوس اور طاقت کے مظاہرے میں مشغول رہے، تو کل کو یہ کشیدگی صرف یوکرین یا ماسکو تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ اس کی چنگاریاں ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ تک جا پہنچیں گی۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگیں صرف سرحدوں پر نہیں لڑی جاتیں، وہ دلوں میں، گھروں میں اور نسلوں کے خوابوں میں گھس جاتی ہیں۔

الٰہی! ان رہنماؤں کو وہ بصیرت دے کہ وہ انسانوں کو قوموں سے مقدم رکھیں، جنگ کی گرج کو امن کی سرگوشی میں بدل دیں اور ایسی دنیا چھوڑ جائیں جہاں بچے صرف کتابوں میں جنگ پڑھیں، خود نہ بھگتیں۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr